اگر کسی شہر کے اردگرد ایسی چراگاہیں ہوں ، جن میں گھاس بکثرت ہو اور اہل شہرٰ لوگوں کے ان چراگاہوں سے گھاس کاٹ کر جمہ کرنے اور بیچنے سے نقصان اٹھاتے ہوں اور ان کےمویشوں کو بھی ان سے نقصان ہوتا ہو اور قاضی کے پاس بھی یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ گئی ہو کہ یہ سارے علاقے بارش نہ ہونے کی وجہ سے بے حد خشک ہیں اور ان کے جانور بھی بھوک کی وجہ سے مر رہے ہیں اور لوگ دوسرے سر سبز و شاداب علاقوں کی طرف نقل مکانی کر رہے ہوں ۔ ان حالات میں یہ بات ہر قسم کے شک و شبہ سے بالا ہے کہ چراگاہ کی گھاس کاٹ کر بیچنے میں لوگوں کےلیے نقصان خصوصا مویشیوں کے مالکان کے بہت تنگی ہے تو اس کے بارے مین کیا حک ہے ؟
اگر انتظامیہ کے پاس یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ جائے کہ چراگاہ کی گھاس کاٹ کر بیچنے میں مویشیوں کےمالکان کے لیے تنگی اور پریشانی ہے توان لوگوں کو کاٹنے اور بیچنے سے منع کر کے گھاس کو جانوروں کے چرنے کے لے مخصوص کیا جاسکتاہے ،کیونکہ فقہ کا قاعدہ یہ ہے کہ مصالح عامہ کو مصالح خاصہ سے مقدم قرار دیا جاتا ہے اور حدیث سے ثابت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :
’’نہ تو کسی کو اپنے فائدے کے لیے نقصان پہنچایا جائے اور نہ کسی کو بلا فائدہ اور بے مقصد نقصان پہنچائے ۔‘‘
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب