سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(714) کیا یہ حرام ہے ؟

  • 11090
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1027

سوال

(714) کیا یہ حرام ہے ؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بحوث علمیہ و افتاء کی فتوی کمیٹی نے اس استفتاء کا جائزہ لیا جوسماحۃ الرئیس العام کی خدمت میں انجمن کبار علماء کے سکرٹریٹ کی طرف سے ( حوالہ : 2225۔2) بھیجا گیا ہے اور سوال یہ ہے کہ کچھ اجنبی لوگوں نے مظاہرے کے تو سیکورٹی فورسز نے انہیں گرفتار کر لیا اور مجاز اتھارٹی نے ان کےمکانات گرادینےکاحکم دیا ، جس کی وجہ سے ان کا کچھ سامان ادھر ادھر بکھر گیا ، جسے بعض لوگوں نے لےلیا تو کیا یہ سامان لے لینے کی وجہ سے کسی کو گناہ تو نہیں ہوگا ؟ کیا یہ سامان لینا حرام ہے ؟اگر کسی نے یہ سامان اٹھالیا ہو اور اب وہ اس کے مالک سے معاف کروانا چاہتا ہو تو اس کی کیا صورت ہے ۔ فتوی عطا فرماکر شکریہ کا موقع بخشیں ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اصول یہ ہے کہ مسلمان خون ، مال اورعزت و آبرو کے اعتبا ر سے واجب الاعتبار ہے ۔کسی کے لیے ناحق دست درازی کرناجائزنہیں ہے ،کیونکہ نبی ﷺ نے حجۃ الوداع میں خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا:

«فَإِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ وَأَعْرَاضَكُمْ بَيْنَكُمْ حَرَامٌ كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا، فِي بَلَدِكُمْ هَذَا، فِي شَهْرِكُمْ هَذَا، (صحیح البخاری ،الحج ، باب الخطبة ایام منی ،ح : 1739 وصحیح مسلم ، الحج باب حجة النبی ﷺ ، ح : 1218 )

’’بےشک تمہارے خون ،تمہارے اموال اورتمہاری عزتیں تمہارے لیے اس طرح ناقابل احترام ہیں ، جس طرح یہ دن ،یہ شہر اور یہ مہینہ قابل احترام ہے ۔

اسی طرح مال کے بارے میں آپ نے فرمایا ہے :

لَا يَحِلُّ مَالُ امْرِئٍ إِلَّا بِطِيبِ نَفْسٍ مِنْهُ، (السنن الکبری للبیهقی : 6؍100 ، 8؍182 ومجمع الزوائد : 4؍172)

’’ کسی مسلمان شخص کا مال حلال نہیں ہے الا یہ کہ وہ خود خوش دلی سے دے دے ۔‘‘

نیز آپ نے فرمایا ہے :

كُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ حَرَامٌ: دَمُهُ، وَمَالُهُ، وَعِرْضُهُ " (صحیح مسلم ،البر والصلة ، باب تحریم ظلم المسلم ۔۔الخ ، ح : 2564)

’’ہر مسلمان کا خون، اس کامال اوراس کی عزت دوسرے مسلمان پرحرام ہے ۔‘‘

آپ نے جو صورت ذکر کی ہے کہ بعض لوگوں نےمظاہرہ کیا اور انتظامیہ نےان کے مکانات کو گرانے کاحکم دےدیا تو اس صورت میں لوگوں کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ ان کےمال و اسباب کو لوٹ لیں ۔ جس کسی نے بھی انکےمال کو لوٹا تووہ ظالم ،سرکش اور گناہ گار شمار ہوگا ،لہذاجس کسی نے ان کامال لی ہو تو اسے چاہیےکہ وہ فورا توبہ و استغفار کرے اوراس شخص کو مال واپس لوٹا دےجسکےگھر سےاس نےاسےلیاہو کیونکہ رسول اللہ ﷺ نےفرمایا ہے :

"من كانت له مَظْلِمةٌ لأخيه من عِرضه أو شيءِ، فليتحلله منه اليوم قبل أن لا يكون دينارٌ ولا درهمٌ، وإن كان له عمل صالحٌ أُخِذَ منه بقدر مظلمته، وإن لم تكن له حسنات أخذ من سيئات صاحبه فحمل عليه".(صحیح البخاری ، المظالم ،باب من کان له مظلمة عند رجل ۔۔ الخ ، ح 2449 )

’’جس کسی نے اپنے بھائی کیآبرو ریزی یا کسی بھی شکل میں اس پرزیادتی کی ہو تو اسے آج ہی معاف کروالے قبل اس کے کہ وہ دن آئےجب اس کے پاس کوئی دینار ہوگا اور نہ درہم البتہ اگر اس کے پاس عمل صالح ہواتو وہ اس کے ظلم کےبقد اس سے لے لیاجائے گا اور اگر اس کے پاس نیکیاں ہوئیں تواس کے ساتھی کی برائیوں کو لے کر اس پر ڈال دیاجائے گا ۔‘‘

اگر پوری تحقیق و جستجو اوران لوگوں کےبارے میں سوال کرنےکےباوجود ،جن کا مال لیا ، ان کےبارے میں علم ہونا اور ان تک مال پہنچانامشکل ہو تو پھر اس مال یا اس کی قیمت کو صدقہ کر دیا جائے ۔ اگر بعد میں ان لوگوں کا علم ہو جائے تو انہیں ساری صورت حال بتادیجائے ۔اگر وہ اس پر راضی ہو جائیں تو ٹھیک ورنہ اس کا تاوان اپنےپاس سے ادا کرے ۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج4ص539

محدث فتویٰ

تبصرے