سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(704) عیدین ، شب معراج اور شب براءت کی محفلیں

  • 11080
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1107

سوال

(704) عیدین ، شب معراج اور شب براءت کی محفلیں
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے ہاں کجھ عادات ہیں جو بعض مواقع کی مناسب سے اختیار کی کی گئی ہیں مثلا عید الفطر کے مواقع پر کیک ارو بسکٹ بنائے جاتے ہیں ۔27 رجب اور 15 شعبان کی راتوں میں گوشت اور پھلوں کی دعوت کا اہتمام کیا جاتا ہے اورعاشوراء کے دن خاص قسم کے حلوے تیار کیے جاتے ہیں تو اس کے بارےمیں حکم شریعت کیاہے ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عید الفطر اور عید الاضحی کےدنوںمیں خوشی اور مسرت کے اظہار میں کوئی حرج نہیں  بشرطیکہ خوشی ومسرت کا یہ اظہار حدو د شریعت کےاندر ہو مثلا ان دنوں میں کھانے پینے وغیرہ کااچھا انتظام کی جاسکتاہے کیونکہ یہ ثابت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے :

’’أيام التشريق أيام أكل وشرب وَذِكْرِ اللهِ ‘‘(صحيح مسلم ، الصیام ، باب تحریم صوم ایام التشریق ۔۔۔ الخ ، ح : 1141)

’’ایام تشریق کھانے، پینے اوراللہ کا ذکر کرنے کےدن ہیں ۔‘‘

ایام تشریق سے مراد عیدالاضحی کےبعد کے تین دن ہیں ۔ ان دنون میں لوگ قربانی کرتے ، قربانیوں کا گوشت کھاتے او راللہ کی نعمتوں سے فیض یاب ہوتے ہیں ۔ اسی طرح عیدالفطر کےموقع پر بہی خوشی  مسرت کےاظہار میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ شریعت کے حدود سے تجاوز نہ کیا جائے ۔

27 رجب یا 15 شعبان کی رات یا عاشوراء کے دن خوشی و مسرت کے اظہار کو کوئی دلیل نہیں ہے بلکہ اس طرح کے کاموں کی ممانعت کی دلیل موجود

 ہے لہذا دجب اس طرح کی محفلوں میں شرکت کی دعوت دی جائے تو ان میں کسی مسلمان کو شرکت نہیں کرنی چاہیے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے :

وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ، فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ، وَإِنَّ كُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ " (سنن ابي داؤد السنه باب في لزوم السنة ح 4607)

" دین میں نئی نئی باتین ایجاد کرنےسے بچو کیونکہ نئی چیز بدعت اور ہر بعدت گمراہی ہے ۔ ‘‘

رجب کی 27 تاریخ کےبارے میں بعض لوگ یہ دعوی کرتے ہیں کہ اس رات رسول اللہ ﷺ کو معراج کرایا گیا تھا لیکن یہ بات تاریخی طور پر ثابت نہیں ہے اور چیز ثابت نہ ہو تو وہ باطل ہوتی ہے اور جس کی باطل پر بنیاد ہووہ باطل ہے اور اگر بالفرض یہ تسلیم کر بھی لیا جائے کہ 27 رجب کی رات ہی شب معراد ہے تو پھر بھی ہمارے لیے یہ جائز نہیں ہےکہ اس رات ہم عید اور عبادات کی صورتوں کو ایجاد کریں کیونکہ یہ رسول اللہ ﷺ سے ثابت نہیں ہے ۔ حضرات صحابہ کرام ﷢ سےبھی یہ قطعا ثابت نہیں ہے حالانکہ وہ رسول الہل ﷺ کےسب لوگوں سے قریب تھے اور آپ کی سنت اور آپ کی لائی ہوئی شریعت کے مطابق عمل کرنے میں سب لوگون سے آگے بڑھے ہوئے تھے ، تو کسی ایسی چیز کو ایجاد کرنا ہمارے لیے کس طرح جائز ہو سکتاہے ،جو رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام ﷢ کےعہد میں نہیں تھی ۔ شعبان کی پندرہویں رات کی عظمت اور شب بیداری کے بارے میں رسول اللہ ﷺ  سے کچھ ثابت نہیں ہے ۔

بعض تابعین نے ضرور اس رات نماز اور ذکر وغیرہ کا اعتمام کیا لیکن یہ ان سے بھی ثابت نہیں  کہ انہوں نے اسی رات کھانے پینے ، خوشی و مسرت کااظہار کرنے  اور عید کی طرح اس رات کو منانے کا اہتمام کیا ہو۔ یوم عاشوراء کے دن روزہ رکھنےکے بارے میں رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا :

«یکفر السنة الماضیة » ( صحیح مسلم ، الصیام ، باب استحباب صیام  ثلاثة ایام من کل شهر ۔۔۔الخ ، ح : 1162)

’’اس دن کا روزہ گزشتہ ایک سال کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔ ‘‘

لیکن اس دن خوشی یا غم کی کوئی کیفیت اختیار کرنا جائز نہیں ہے ، کیونکہ اس دن خوشیی یا غم کا اظہار دونوں باتیں ہی خلاف سنت ہیں کیونکہ نبی اکرم ﷺ سے اس دن کے روزے کے سوا اور کچھ ثابت نہیں ہے اور روزے کے بارے میں بھی آب نے ہمیں حکم دیا ہے کہ اس دن سے پہلے یا اس دن کے بعد ایک دن کا روزہ بھی اس کے ساتھ رکھیں تاکہ ان یہودیوں کومخالفت بھی کی جاسکے جو صرف عاشوراء کےدن کا روزہ رکھا کرتے تھے ۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج4ص532

محدث فتویٰ

تبصرے