سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(313) دو نمازوں کو جمع کرنے کی کہاں تک رخصت ہے؟

  • 1108
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1227

سوال

(313) دو نمازوں کو جمع کرنے کی کہاں تک رخصت ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہم نے گزشتہ دنوں دیکھا کہ نمازیں بہت کثرت سے جمع کر کے ادا کی جارہی تھیں اور اس مسئلہ میں لوگوں نے بہت تساہل سے کام لیا ہے، آپ کی رائے میں کیا اس طرح کی سردی نمازوں کے جمع کرنے کا جواز بن سکتی ہے؟ اللہ تعالیٰ آپ کو اجر و ثواب سے نوازے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

لوگوں کے لیے یہ حلال نہیں کہ وہ تساہل سے کام لے کر نمازیں جمع کر کے ادا کریں کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿إِنَّ الصَّلوةَ كانَت عَلَى المُؤمِنينَ كِتـبًا مَوقوتًا ﴿١٠٣﴾... سورة النساء

’’بے شک نماز کا مومنوں پر اوقات (مقررہ) میں ادا کرنا فرض ہے۔‘‘

اور فرمایا:

﴿أَقِمِ الصَّلوةَ لِدُلوكِ الشَّمسِ إِلى غَسَقِ الَّيلِ وَقُرءانَ الفَجرِ إِنَّ قُرءانَ الفَجرِ كانَ مَشهودًا ﴿٧٨﴾... سورة الإسراء

’’(اے نبی!) سورج کے ڈھلنے سے رات کے اندھیرے تک (ظہر، عصر، مغرب اور عشاء کی) نمازیں قائم کرو اور صبح کو قرآن پڑھا کرو کیونکہ صبح کے وقت قرآن کا پڑھنا موجب حضوری (ملائکہ) ہے۔‘‘

جب فرض نماز کا وقت مقرر ہے تو اسے اس کے مقرر وقت میں ادا کرنا واجب ہے، جیسے کہ آیت کریمہ: ﴿أَقِمِ ٱلصَّلَوٰةَ لِدُلُوكِ ٱلشَّمۡسِ﴾ میں اجمال کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اور جس کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے تفصیل اس طرح بیان فرمائی ہے:

«وَقْتُ الظُّهْرِ إِذَا زَالَتِ الشَّمْسُ وَکَانَ ظِلُّ الرَّجُلِ کَطُولِه مَا لَمْ يَحْضُرِ الْعَصْرُ وَوَقْتُ الْعَصْرِ مَا لَمْ تَصْفَرَّ الشَّمْسُ وَوَقْتُ صَلٰوةِ الْمَغْرِبِ مَا لَمْ يَغِبْ الشَّفَقُ وَوَقْتُ صَلٰوةِ الْعِشَآءِ اِلٰی نِصْفِ اللَّيْلِ الْأَوْسَطِ وَوَقْتُ صَلَاةِ الصُّبْحِ مِنْ طُلُوعِ الْفَجْرِ مَا لَمْ تَطْلُعْ الشَّمْسُ» (صحيح مسلم، المساجد، اوقات الصلوات الخمس، ح:۶۱۲ (۱۷۳)

’’ظہر کا وقت ہے جب سورج کا زوال ہو جائے اور آدمی کا سایہ اس کے اپنے طول کے برابر ہو جائے اور یہ عصر کے وقت تک ہے اور عصر کا وقت، وہ ہے جب تک سورج زرد نہ ہو، اور نماز مغرب کا وقت وہ ہے جب تک شفق غائب نہ ہو، اور نماز عشاء کا وقت آدھی رات تک ہے اور صبح کی نماز کا وقت طلوع فجر سے لے کر طلوع شمس تک ہے۔‘‘

﴿وَمَن يَتَعَدَّ حُدودَ اللَّهِ فَأُولـئِكَ هُمُ الظّـلِمونَ ﴿٢٢٩﴾... سورة البقرة

’’اور جو لوگ اللہ کی حدوں سے باہر نکل جائیں، تووہی ظالم ہیں۔‘‘

جو شخص جانتے بوجھتے ہوئے قصد وارادے کے ساتھ قبل از وقت نماز پڑھ لے، وہ گناہ گار ہے، اسے نماز دوبارہ پڑھنا ہوگی اور اگر کسی نے جان بوجھ کر قصد وارادے سے قبل از وقت نماز نہیں پڑھی بلکہ غلطی کی وجہ سے پڑھی ہے، تو وہ گناہ گار تو نہیں ہوگا، البتہ اسے نماز دوبارہ پڑھنا ہوگی۔

حاصل کلام یہ کہ جو شخص کسی شرعی سبب کے بغیر نماز قبل از وقت جمع کر لے، تو اس کی نماز صحیح نہیں ہوگی، اسے یہ نماز دوبارہ پڑھنی ہوگی۔ اسی طرح جو شخص جان بوجھ کر قصد وارادے کے ساتھ بلا عذر نماز کو وقت سے مؤخر کر دے تو راجح قول کے مطابق وہ گناہ گار ہوگا اور اس کی نماز قبول نہیں ہوگی، لہٰذا کسی شرعی سبب کے بغیر نماز کو مؤخرکرکے کسی دوسری نماز کے ساتھ جمع کر کے پڑھا جائے تو راجح قول کے مطابق ایسی نماز قبول نہیں ہوتی۔ ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرے اور نماز جیسے عظیم الشان معاملے میں تساہل سے کام نہ لے۔ صحیح مسلم میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ  سے مروی حدیث ہے:

«جَمَعَ رَسُولُ اللّٰهِ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ و بين َالْمَغْرِبِ وَالْعِشَآءِ  فی الْمَدِينَةِ فِی  من غَيْرِ خَوْفٍ وَلَا مَطَرٍ» (صحيح مسلم، صلاة المسافرين، الجمع بين الصلاتين فی الحضر، ح: ۷۰۵ (۵۴)

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے مدینہ میں ظہر و عصر اور مغرب وعشاء کو خوف اور بارش کے بغیر جمع کیا۔‘‘

 اس میں کہیں بھی نماز میں تساہل کی دلیل نہیں پائی جاتی کیونکہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ  سے یہ پوچھا گیا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایسا کیوں کیا؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ آپ نے ایسا اس لیے کیا تاکہ امت کو حرج میں مبتلا نہ ہو۔ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ ہر نماز کو وقت پر ادا کرنے میں حرج ہونا جمع کے جواز کا سبب ہے لہٰذا جب ہر نماز کے وقت پر ادا کرنے میں حرج ہو تو پھر نماز کو جمع کر کے ادا کرنا جائز یا مسنون ہے اور اگر کوئی حرج نہ ہو تو پھر ہر نماز کو وقت پر ادا کرنا واجب ہے۔

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ محض سردی کی وجہ سے نماز کو جمع کرنا جائز نہیں الایہ کہ سردی کی شدت کے ساتھ ایسی تیز ہوا بھی ہو جس کی وجہ سے لوگوں کو مسجد جانے سے تکلیف ہوتی ہو یا ژالہ باری ہو جس سے لوگوں کو ایذا پہنچتی ہو تو پھر جمع کرنا جائز ہے۔

میری تمام مسلمان بھائیوں اور خصوصاً ائمہ مساجد کو نصیحت یہ ہے کہ وہ اس معاملہ میں اللہ تعالیٰ سے ڈریں اور اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر فریضہ نماز کے ادا کرنے میں اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کریں۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ319

محدث فتویٰ

تبصرے