سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(684) لے پالک بنانے کے بارے میں احکام

  • 11061
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 3396

سوال

(684) لے پالک بنانے کے بارے میں احکام
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بحوث علمیہ وافتاء کی کمیٹی نے اس استفسار کو ملاحظہ کی جو انجمن برائے بہبودی اطفال پنجاب کی طرف سے جناب چیئرمیں ادارت تحوث علمیہ وافتاء و دعوت وارشا د کی خدمت میں پیش کیا گیا تھا اور انہوں نے اسے مراسلہ نمبر 86؍2 تاریخ 15؍1؍1392ھ کو کبار علماء کی کونسل کےسپرد کر دیا ۔ اس استفسار میں یہ پوڈچھا گیا ہے کہ ان اصول و قواعد کو بیان کردیا جائے ، جس سےیہ معلوم ہو جائے کہ وراثت میں متبنی بچے کا زیادہ حق دار کون ہے ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس سوال کا درج ذیل جواب دیا گیا : ۔1۔ ہمارےنبی حضرت محمد ﷺ کی رسالت سے قبل ایام جاہلیت میں بچوں کو لے پالک بنانےکا طریق معروف تھا ۔ جو شخص کسی دوسرے کے بچے کو لے پالک بنا لیتا تو پھر بچے کی نسبت اسی کی طرف کی جاتی ، وہ اس کا وارث قرار پاتا اوراس کی بیوی اور بچیوں کے پاس بلا روک ٹوک آ جاسکتا تھا اور لے پالک بنانے والے کے لیے اس بچے کی بیوی سےنکاح حرام سمجھا جاتا تھا الغرض تمام امور و معاملا ت میں منہ بولے بیٹے کو مقیقی بیٹے ہی کی طرح سمجھا جاتا تھا ۔ نبی اکرم ﷺ نے بھی نبوت سے پہلے زید بن حارثہ بن شراحیل کلبی کو اپنامنہ بولا بیٹا بنایا تھا اور انہیں زید بن محمد کےنام سے پکارا جاتا تھا ۔ لے پالک بچوں کے لیے زمانہ جاہلیت کا یہ طریقہ 3ھ یا 5 ھ تک برقرار رہا ۔

2۔ پھر اللہ تعالی نے حکم دے دیا کہ لے پالک بچوں کی نسبت ان کے حقیقی باپوں ہی کی طرف کی جائے ، جن کی پشت سے وہ پیدا ہوئے ہیں  ، اگر وہ معلوم ہوں اور اگر ان کےحقیقی باپوں کاعلم نہ ہو تو وہ پھر وہ دینی بھائی اور متبنی بنانے والے اور دیگر مسلمانوں کے دوست ہیں ۔ اللہ تعالینے اس بات کو حرام قرار دے دیاکہ بچے کی لے پالک بنانےوالے کی طرف حقیقی نسبت کی جائےبلکہ بچے کے لیے بھی اس بات کو حرام قرار دے دیا کہ وہ اپنے حقیقی باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرے ، البتہ اگر زبان کی کسی غلطی کی وجہ سے ایسا ہو جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ، اللہ سبحانہ و تعالی نے واضح فرمایا ہے کہ یہ حکم عین عدل و انصاف پر مبنی ہے ، یہی سچی بات ہے ، اس میں انساب اور عزتوں کی حفاظت بھی ہے اور ان لوگوں کےمالی حقوق کی حفاظت بھ ، جو ان کے زیادہ حق دار ہیں ۔ ارشاد باری تعالی ہے :

﴿وَما جَعَلَ أَدعِياءَكُم أَبناءَكُم ۚ ذ‌ٰلِكُم قَولُكُم بِأَفو‌ٰهِكُم ۖ وَاللَّهُ يَقولُ الحَقَّ وَهُوَ يَهدِى السَّبيلَ ﴿٤ ادعوهُم لِءابائِهِم هُوَ أَقسَطُ عِندَ اللَّهِ ۚ فَإِن لَم تَعلَموا ءاباءَهُم فَإِخو‌ٰنُكُم فِى الدّينِ وَمَو‌ٰليكُم ۚ وَلَيسَ عَلَيكُم جُناحٌ فيما أَخطَأتُم بِهِ وَلـٰكِن ما تَعَمَّدَت قُلوبُكُم ۚ وَكانَ اللَّهُ غَفورً‌ا رَ‌حيمًا ﴿٥﴾... سورةالاحزاب

"اورنہ تمہارے لے پالکوں کوتمہارے بیٹے بنایا ، یہ سب تمہارے منہ کی باتیں ہیں اور اللہ تعالی توسچی بات فرماتا ہے اور وہ سیدھا راستہ دکھاتا ہے ۔ مومنو! لے پالکوں کو ان کے( اصلی ) باپوں کےنام سے پکارا کرو کہ اللہ کےنزدیک یہ بات درست ہے۔ اگر تم کو ان سےباپوں کے نام معلوم نہ ہوں تو دین میں وہ تمہارے بھائی اور دوست ہیں اور جو بات تم سےغلطی سےہو اس میں تم پر کچھ گناہ نہیں لیکن جو قصد دل سے کرو ( اس پر مؤاخذہ ہے )اوراللہ بڑا بخشنے ولا نہایت  مہربان ہے ۔‘‘

نبی ﷺ نے فرمایاہے :

«مَنِ ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ، أَوِ انْتَمَى إِلَى غَيْرِ مَوَالِيهِ، فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ الْمُتَتَابِعَةُ، (سنن ابی داؤد ، الادب ، باب فی الرجل ینتمی الی غیر موالیه ، ح: 5115)

’’جو شخص اپنےباپ کے علاوہ کسی اور کا بیٹا ہونے کا دعو ی کرے یا (کوئی غلام ) اپنے آقاؤں کی بجائےدوسروں کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرے تو اس پر اللہ تعالی کی مسلسل لعنت ہو ۔‘‘

3۔اللہ سبحانہ وتعالی نے منہ لولے بیٹے کے دعوے کو ،جس کو کوئی حقیقت نہیں ہوتی ، مسترد کردیا ، اس لیے اس سے متعلق وہ تمام احکام بھی ختم ہوگئے ، جن پر زمانہ جاہلیت میں عمل ہوتا تھا اور پھر اسلام کے ابتدائی دور تک ہوتا رہا ۔ جن میں سےبعض احکام حسب ذیل ہیں : (الف) اس غیر حقیقی دہوئےکی وجہ سےلے پالک اور اسےبیٹا بنانے والے کےدرمیان وراثت کاتعالق ختم کردیا گیا ۔ البتہ اس بات کو برقرار رکھا گیا کہ یہ دونوں زندگی میں ایک دوسرےکےساتھ نیکی کر سکتے ہیں اوروفات کے بعد وصیت کرسکتے ہیں ، مگر یہ وصبیت کرنے والے کےمال کےایک تہائی حصہ سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے ۔ اسلامی معاشرےنے وراثت اور مستحقین کےاحکام تفصیل کےساتھ بیان کر دیےہیں ، اس تفصیل میں متبنی بنانے والے اور جسے متبنی بنایا گیا ہو ، کاقطعا کوئی ذکر نہیں ہے۔ نیکی اوراحسان کا وارث کےسلسلہ میں اجمالا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :

﴿وَأُولُوا الأَر‌حامِ بَعضُهُم أَولىٰ بِبَعضٍ فى كِتـٰبِ اللَّهِ مِنَ المُؤمِنينَ وَالمُهـٰجِر‌ينَ إِلّا أَن تَفعَلوا إِلىٰ أَولِيائِكُم مَعر‌وفًا...﴿٦﴾... سورة الاحزاب

’’اور رشتہ دار آپس میں کتاب اللہ کی رو سے مسلمانوں اورمہاجروں سےایک دوسرے (کےترکے)کےزیادہ حق دار ہیں مگر یہ کہ م اپنےدوستوں سےاحسان کرنا چاہوِ‘‘

(ب) متبنی بنانےوالے کو اللہ تعالی نے اجازت دی ہے کہ وہ اپنے لے پالک کی بیوی سے اسوقت نکاح کر سکتاہے ، جب وہ اس سے علیحدگی اختیار کرلے ، زمانہ جاہلیت میں اسے حرام سمجھا جاتا تھا ۔ اللہ تعالی نے اپنے رسول ﷺ سے اس رسم کے خاتمہ کا اغاز کروایا تاکہ حلال ہونے کی یہ ایک قوی دلیل بن جائے اور زمانہ جاہلیت کی اس عادت کا سختی سے خاتمہ ہوسکے ۔ ارشاد باری تعالی ہے :

﴿فَلَمّا قَضىٰ زَيدٌ مِنها وَطَرً‌ا زَوَّجنـٰكَها لِكَى لا يَكونَ عَلَى المُؤمِنينَ حَرَ‌جٌ فى أَزو‌ٰجِ أَدعِيائِهِم إِذا قَضَوا مِنهُنَّ وَطَرً‌ا ۚ وَكانَ أَمرُ‌ اللَّهِ مَفعولًا ﴿٣٧﴾... سورةالاحزاب

’’ پھر جب زید نے اس سے اپنی مرضی پوری  کرلی (یعنی اس کو طلاق دے دی ) تو ہم نے تم سے اس کا نکاح کردیاتاکہ مومنوں کے لیےان کےمنہ بولے بیٹے کی بیویوں ( کے ساتھ نکاح کرنے کےبارے) میں جب وہ  ان سے (اپنی ) حادب پوری کرلیں ( یعنی طلاق دےدیں ) کچھ تنگی نہ رہے اور اللہ کا حکم واقع ہو کر رہنے والا تھا ۔‘‘

تو نبی اکرم ﷺ نے زینب بنت جحش سے اللہ تعالی کےحکم سےاس وقت نکاح کرلیا جب ان کے شوہر زید بن حارثہ نے انہیں طلاق دے دی تھی ۔

4۔ اس تفصیل سےمعلوم ہوا کہ متبنہ بنانے کی رسم کے خاتمہ کے یہ معنی نہیں کہ اخوت ، محبت ، صلہ رحمی اور احسان کی انسانی قدروں اور اسلامی حقوق کے بھی خاتمہ کر دیا جائے لہذا : (الف) انسان ازراہ لطف و کرم اور شفقت و محبت اپنے سے عمر کے اعتبار سے چھوٹے ( کم عمر ) کو یابنیی (اے میرے بیٹے ) کہہ سکتاہے ،تاکہ وہ اس سے مانوس ہوجائے ، اس کی نصیحت کو سنے یا اس کے کام کو کردے ۔ اسی طرح عمر کے اعتبار سےبڑے شخص کو کوئی چھوٹا بطور تعظیم و تکریم یا ابی ( ابا جی) کہہ سکتاہے تاکہ اس کی طر ف نیکی و نصیحت کو حاصل کرسکے ، اس سے مدد و تعاون لےسکے ، معاشرے میں ادب و احترام کی فضاء پیدا ہو، معاشرے کے افراد میں باہمی تعلقات مضبوط و مستحکم ہوں اور سارامعاشرہ سچی و دینی اخوت سےسرشار ہوجائے ۔ (ب)اسلامی شریعت نے نیکی اور تقوی کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون ، باہمی الفت و محبت اور حسن سلوک کی ترغیب دی ہے ، ارشاد باری تعالی ہے :

﴿وَتَعاوَنوا عَلَى البِرِّ‌ وَالتَّقوىٰ ۖ وَلا تَعاوَنوا عَلَى الإِثمِ وَالعُدو‌ٰنِ...﴿٢﴾... سورةالمائدة

’’اور (دیکھو! ) تم نیکی اور پرہیز گاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اورظلم کے کاموں میں مدد نہ کیاکرو ۔‘‘

اور نبی ﷺ نے فرمایاہے :

«أَلَا إِنَّ مَثَلَ الْمُؤْمِنِينَ وَمَثَلَ تَوَادِّهِمْ وَتَحَابِّهِمْ وَتَرَاحُمِهِمْ مَثَلُ الْجَسَدِ إِذَا اشْتَكَى بَعْضُهُ تَدَاعَى سَائِرُهُ بِالسَّهَرِ وَالْحُمَّى»

 (صحیح مسلم ، البر والصلۃ ،باب تراحم المؤمنین وتعاطفہم ، ح : 2586 ومسند احمد  : 4؍270)

’’باہمی محبت ،رحمدلی اورشفقت کے اعتبار سےمومنوں کی مثال ایک جسم کی سی ہے ، کہ جب کوئی ایک عضو کسی تکلیف میں مبتلا ہو تو ساراجسم بے خوابی اور بخار کے ساتھ بے قرار ہو جاتاہے ۔‘‘

(المؤمن للمؤمن کالبنیان ،یشد بعضهم بعضا )((صحیح البخاری ،المظالم  ، باب نصر المظلوم ، ح : 2446 وصحیح مسلم البر والصلة ، باب تراحم المؤمنین  وتعطفهم وتعاضدهم ، ح : 2585))

’’مومن مومن کے لیے ایک دیوار کی مانندہے ، جس کا ایک حصہ دوسرے کو مضبوط کرتاہے ۔‘‘

اسی لیے شریعت نے حکم دیا ہے کہ یتیموں ،مسکینوں ، ناداروں اور لاوارث بچوں کی نگہداشت کی جائے ، ان کی تعلیم و تربیت کااہتمام کیا جائے اور ان سے نیکی اور حسن سلوک کامعاملہ کیا جائے تاکہ اسلامی معاشرے میں کوئی شخص لاچار و بے کانہ ہو کیونکہ معاشرہ اگر ایسے لوگو ں بارے میں سنگ دلی ارو عدم توجہی کا ثبوت دے تو پھر اس طرح کے لوگ بھی اپنی بری تربیت یاسرکشی و تغاوت کے باعث وعاشرے کے لیے ناسور کی حثیت اختیار کرجاتے ہیں ۔ اسلامی حکومتوں کا فرض ہےکہ وہ ناداروں ،یتیموں اور لاوارث بچوں کےلیے ہوسٹل بنائے، اگر بیت المال سےان کے اخراجات پورےنہ ہوسکتے ہوں تو امت کےخوشحال لوگوں سےمدد لی جائے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے :

فَأَيُّمَا مُؤْمِنٍ مَاتَ وَتَرَكَ مَالًا فَلْيَرِثْهُ عَصَبَتُهُ مَنْ كَانُوا، وَمَنْ تَرَكَ دَيْنًا أَوْ ضَيَاعًا، فَلْيَأْتِنِي فَأَنَا مَوْلاَهُ "

 (صحیح البخاری،الاستقراض ،باب الصلاة علی من ترک دینا ، ح : 2399)

’’جو مومن فوت ہوا اورمال چھوڑ جائے ، تو اس کےوارثاس کےعصبہ ہیں ،خواہ وہ کوئی بھی ہو ں ارو جوقرض یاچھوٹے بچےچھوڑ جائےتووہ میرے پاس آئے میں اسکا دوست ہوں ۔‘‘

اس فیصلے پر کمیٹی کےتمام ارکان نےدستخط کیے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج4ص517

محدث فتویٰ

تبصرے