السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مریض کس طرح نماز اداکرے گا؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مریض درج ذیل طریقوں میں سے جس طریقے کی طاقت رکھتا ہو اس طریقے سے نماز اداکر لے:
٭ مریض پر واجب ہے کہ وہ کھڑا ہو کر نماز پڑھے، خواہ ٹیڑھا کھڑا ہو یا دیوار کے سہارے یا بوقت ضرورت عصا کا سہارا لے کر کھڑا ہو۔
٭ اگر کھڑے ہونے کی اس میں سکت نہ ہو تو بیٹھ کر نماز پڑھ لے اور افضل یہ ہے کہ قیام اور رکوع کی جگہ چوکڑی (یا پالتھی) مارکر بیٹھے۔
٭ اگر بیٹھ کر نماز پڑھنے کی بھی اس میں طاقت نہ ہو تو قبلہ رخ لیٹ کر نماز پڑھ لے اور افضل یہ ہے کہ دائیں پہلو پر لیٹے۔ اگر قبلہ رخ ہونا ممکن نہ ہو تو جس طرف اس کا منہ ہو اس طرف رخ کئے ہوئے نماز ادا کرلے، اس کی نماز صحیح ہوگی اور اس کے اعادہ کی ضرورت نہیں۔
٭ اگر پہلو کے بل لیٹ کر نماز پڑھنا اس کے لیے ممکن نہ ہو تو قبلہ کی طرف پاؤں کر کے چت لیٹ کر پڑھ لے اور افضل یہ ہے کہ اپنے سر کو تھوڑا سا اوپر اٹھا لے تاکہ قبلہ رخ ہو سکے اور اگر قبلہ رخ پاؤں کرنے کی استطاعت نہ ہو تو اس کے پاؤں جس طرف بھی ہوں، اسی حالت میں نماز اداکر لے، اس نماز کے دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہیں۔
٭ مریض کے لیے نماز میں رکوع و سجود واجب ہیں، اگر اس کی طاقت نہ ہو تو اپنے سر کے ساتھ اشارہ کر لے اور رکوع کی نسبت سجدے میں زیادہ جھکے۔ اگر اسے سجدہ کی استطاعت تو نہ ہو مگر وہ رکوع کر سکتا ہو تو حالت رکوع میں رکوع کر لے اور سجدہ اشارے سے کر لے اور اگر رکوع کی طاقت تو نہ ہو مگر وہ سجدہ کر سکتا ہو تو سجدہ کی حالت میں سجدہ کر لے اور رکوع اشارے کے ذریعہ کرے۔
٭ اگر رکوع وسجود میں اس کے لیے سر کے ساتھ اشارہ کرنا ممکن نہ ہو تو اپنی آنکھوں سے اشارہ کر تے ہوئے نمازادا کرے، رکوع کے لیے آنکھ کو تھوڑا سا بند کر لے اور سجدے کے لیے اس سے زیادہ بند کر لے۔ انگلی کے ساتھ اشارہ، جیسا کہ بعض مریض کرتے ہیں، صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ کتاب وسنت اور اقوال اہل علم میں اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔
٭ اگر وہ سر یا آنکھ کے ذریعہ اشارہ نہ کر سکتا ہو تو دل کی نیت کے ساتھ نماز اداکرے، دل میں تکبیر کہہ لے، دل میں قرائت کرے، رکوع، سجود، قیام اور قعود کی دل ہی دل میں نیت کر ے، جیسا کہ ارشاد نبوی ہے:
«وَلِکُلِّ امْرِيئٍ مَا نَوٰی» (صحيح البخاري، بدء الوحی، باب کيف کان بدء الوحی الی رسول الله صلی الله عليه وسلم ح: ۱)
’’اور ہر شخص کے لیے وہی کچھ ہے جس کی اس نے نیت کی۔‘‘
٭ مریض کے لیے واجب ہے کہ ہر نماز کو اس کے وقت پر ادا کرے اور اس سے متعلق ہر واجب جس کو ادا کرنے کی اسے طاقت ہے، ادا کرے پھر اگر ہر نماز بروقت ادا کرنے میں دشواری ہو تو ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کو جمع کر کے ادا کر سکتا ہے، چاہے جمع تقدیم کی صورت اختیار کر لے، یعنی نماز عصر کو بھی ظہر کے وقت میں اور نماز عشاء کو مغرب کے وقت میں ادا کر لے اور اگر چاہے توجمع تاخیر کی صورت اختیار کر ے، یعنی نماز ظہر کو عصر کے وقت میں اور نماز مغرب کو عشاء کے وقت میں جمع کر کے ادا کر ے۔ جس طرح بھی اس کے لیے زیادہ آسانی ہو اسی طرح کرے لیکن نماز فجر کو اپنے وقت ہی پر ادا کرنا ہوگا اسے پہلی یا بعد والی کسی نماز کے ساتھ جمع نہیں کیا جا سکتا۔
٭ مریض اگر مسافر ہو اور کسی دوسرے علاقے میں علاج کروا رہا ہو تو وہ قصر کرتے ہوئے ظہر، عصر اور عشاء کی نمازوں کو دو دو رکعتیں ادا کرے گا حتیٰ کہ اپنے گھر لوٹ آئے، خواہ یہ مدت زیادہ ہو یا کم۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب