سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(650) نظر بد اور جن کا لگ جانا

  • 11027
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2893

سوال

(650) نظر بد اور جن کا لگ جانا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا نظر بد انسان کو لگ جاتی ہے ؟ اس کا علاج  کیا ہے؟ کیا اس سے بچنا تو کل کے منافی تو نہیں ہے ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نظر بد کالگ جانا برحق  اور شرعی و حسی طور پر ثابت ہے۔ارشاد باری تعالی ہے :

﴿وَإِن يَكادُ الَّذينَ كَفَر‌وا لَيُزلِقونَكَ بِأَبصـٰرِ‌هِم... ﴿٥١﴾... سورة القلم

’’اور کافر ، یوں لگتے ہیں کہ تم کو اپنی نگاہوں سے پھسلا دیں گے۔‘‘

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اور کئی دیگر مفسرین نے اس آیت کریمہ کی تفسیر میں فرمایا ہے  یہ لوگ اپنی آنکھوں کے ساتھ آپ کو نظر بد لگانا چاہتے ہیں اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے:

«الْعَيْنُ حَقٌّ، وَلَوْ كَانَ شَيْءٌ سَابَقَ الْقَدَرَ سَبَقَتْهُ الْعَيْنُ، وَإِذَا اسْتُغْسِلْتُمْ فَاغْسِلُوا» (صحیح مسلم ، السلام ، باب الطب والمرض والرقی ، ح 2188)

’’نظر بد کا لگ جانا برحق ہے ، اگر کوئی چیز سے سبقت لے جاسکتی تو وہ نظر بد ہے اور جب تم سےغسل کا مطالبہ کیا جائے تو تم غسل کردیا کرو۔‘‘

اسی طرح امام نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے کہ ’’عامر بن ربیعہ کا سہل بن حنیف کے پاس سے اس وقت گزر ہوا جب وہ غسل کر رہے تھے تو اس نے کہا کہ جس طرح کا (خوبصورت اور حسین ) بدن میں نے آج دیکھا ہے ، اس طرح کا بدن تو کسی پردہ نشین دوشیزہ کا بھی نہیں دیکھا ۔ بس اس کایہ کہنا تھا کہ سہل بے ہوش ہو کرزمین پر گر گئے ، انہیں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لایا گیا اور عرض کیا گیا یا رسول اللہ ! سہل بے ہوش ہوگئے ہیں ، ان کا علاج فرمائے۔ آپ نے فرمایا ،تم کسے الزام دیتےہو ؟ انہوں نے کہا کہ ہم عامر بن ربیعہ کو مورد الزام ٹھہراتےہیں۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا:

عَلَامَ يَقْتُلُ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ؟ إِذَا رَأَى مِنْهُ شَيْئًا يُعْجِبُهُ فَلْيَدْعُ لَهُ بِالْبَرَكَةِ» (سنن ابن ماجه ، الطب  ، باب العین ،ح 3509 وسنن الکبری للنسائی : 6؍60 ، ح : 10036)

’’تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو قتل کیوں کرتا ہے ؟ جب کوئی اپنے بھائی کو کسی ایسی چیز کو دیکھے جو اسے اچھی لگے تو اس کے لیے برکت کی دعا کرے۔‘‘

پھر آپ نے پانی منگوایا اور عامر کو حکم دیا کہ وہ وضو کرے، اپنے چہرےاور دونوں ہاتھوں کو کہنیوں تک دھوئے اور دونوںگھٹنوں کو ارو تہبند کے اندر کے حصے کو دھوئے ، پھر آپ نے حکم دیا کہ اس پانی کو سہل کے اوپر انڈیل دو اور ایک روایت میں الفاظ یہ ہیں کہ آپ نے حکم دیا  کہ برتن کو اس کے پیچھے سے اس کے اوپر انڈیل دو ۔ نظر لگنا ایک ایسا امر واقع ہے ، جو کئی دفعہ مشاہدہ میں آچکا ہے ۔ لہذا اس کا انکار ممکمن نہیں ۔ نظر لگ جائے تو اس کے لیے حسب ذیل شرعی علاج  استعمال کیے جائیں:

1۔دم کرنا : نبی اکرمﷺ نےفرمایا ہے:

((لا رقیة الا من عین او حمة ))( صحیح البخاري، الطب باب من اکتوی اورکوی غیرہ ۔۔الخ ، ح : 5705 وصحیح مسلم ، الایمان ،باب الدلیل علی دخول طوائف من المسلمین ۔۔۔۔الخ ، ح : 220 )

’’دم نظر بد یا بخاری ہی کے لیے کیا جا سکتا ہے۔‘‘

جبریل امین نبی اکرم ﷺ کو دم کرتے ہوئےیہ کلمات پڑھا کرتے تھے:

«بِسْمِ اللَّهِ أَرْقِيكَ، مِنْ كُلِّ شَيْءٍ يُؤْذِيكَ، وَمَنْ شر كُلِّ نفس او عَيْنٍ حَاسِدٍ، وَاللَّهُ يَشْفِيكَ،بِسْمِ اللَّهِ أَرْقِيكَ» (صحيح  مسلم ، السلام ، باب الطب والمرض والرقی ، ح :2186 )

’’اللہ کےنام کے ساتھ میں تجھے دم کرتاہوں، ہر اس چیز سے جو تجھے تکلیف دے اور ہر اس انسان کے یا حسد کرنے والی آنکھ کےشر سے، اللہ تجھے شفاء دے ، میں اللہ تعالی کے نام کے ساتھ تجھے دم کرتا ہوں۔‘‘

2۔نہانے کا مطالبہ کرنا: جیسا  کہ سابق حدیث سے ثابت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے عامر بن ربیعہ کو اس کا حکم دیا تھا اور پھر غسل کے اس پانی کو اس شخص پر انڈیل دیا جائے جسے نظر لگی ہو ۔ جہاں تک اس کے فضلات اور بول و براز کو لینے کی بات ہےیہ بالکل بے اصل ہے ۔ اسی طرح اس کے پاؤں کو لینا بھی بالکل بے اصل ہے ، اس سلسلہ میں جو ثابت ہے وہ صرف نظر بد لگانے والے سے یہ مطالبہ ہے کہ وہ اپنے اعضاء اور تہبند کے اندر کے حصے کو دھوئے ، پگڑی ، ٹوپی اور کپڑے کے اندر کے حصے کو دھونے  کا بھی شاید یہی اثر ہو۔

نظر بدسے پیشگی بچاؤ اختیار کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ۔ یہ توکل کے بھی منافی نہیں بلکہ یہ عین توکل ہے کیونکہ توکل کے معنی یہ ہیں کہ اللہ سبحانہ وتعالی کی ذات گرامی پر اعتماد کیا جائے اور  ان اسباب کو بھی اختیار کیا جائے ، جنہیں اللہ تعالی نے مباج قرار دیا ہے ، یا جنہیں اختیار کرنے کا حکم  دیا ہے ۔ نبی اکرم ﷺ حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما کو بھی یہ دم کیا کرتے تھے :

" أُعِيذُكُمَا بِكَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّةِ، مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ وَهَامَّةٍ، وَمِنْ كُلِّ عَيْنٍ لامَّةٍ " (صحیح البخاري ، احادیث الانبیاء ، باب 10 ، ح : 3371 بلفظ اعوذ۔۔۔)

’’میں تم دونوں کو اللہ تعالی کے مکمل کلمات کی پناہ میں دیتا ہوں ، ہر شیطان اور زہریلی  بلا کے شر سے اور ہر لگنے والی نظر بد کے شرسے۔‘‘

اور آپ یہ بھی فرمایا کرتے تھے: حضرت ابراہیم ، حضرت اسحاق اور اسماعیل علیہم السلام کو بھی اسی طرح دم کیا کرتے تھے۔(

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج4ص494

محدث فتویٰ

تبصرے