السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میرا ایک دوست ہے جو اکثر لوگوں کی غیبت کرتا رہتا ہے، میں نے اسے سمجھایا ہے لیکن بے سود اور معلوم ہوتا ہے کہ غیبت کرنا اس کی عادت بن چکا ہے، ممکن ہے کہ بسا اوقات لوگوں کے بارےمیں اس کی گفتگو حسن نیت ہی سے ہو تو کیا اس سے تعاق قطع کرنا جائز ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مسلمانوں کی عزتوں کے بارے میں ایسی گفتگو کرناجسے وہ ناپسند کرتے ہوں ایک بہت بڑی رائی ،حرام غیبت ارو کبیرہ گناہ ہے کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا ہے:
﴿وَلا يَغتَب بَعضُكُم بَعضًا ۚ أَيُحِبُّ أَحَدُكُم أَن يَأكُلَ لَحمَ أَخيهِ مَيتًا فَكَرِهتُموهُ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ تَوّابٌ رَحيمٌ ﴿١٢﴾... سورةالحجرات
’’اورنہ کوئی کسی کی غیبت کرے۔ کیا تم میں سے کوئی شخص اسبات کو پسند کرے گاکہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے؟اس سے تو تم ضرورو نفرت کرو گے۔ (توغیبت نہ کرو) اور اللہ کاڈر رکھو،بے شک اللہ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔‘‘
«أَتَدْرُونَ مَا الْغِيبَةُ؟» قَالُوا: اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: «ذِكْرُكَ أَخَاكَ بِمَا يَكْرَهُ» قِيلَ أَفَرَأَيْتَ إِنْ كَانَ فِي أَخِي مَا أَقُولُ؟ قَالَ: «إِنْ كَانَ فِيهِ مَا تَقُولُ، فَقَدِ اغْتَبْتَهُ، وَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِيهِ فَقَدْ بَهَتَّهُ» (صحيح مسلم ،البر والصلة، باب تحريم الغيبة: 2589 )
’’كیا تم جانتے ہو کہ غبت ہے ؟ صحابہ کرام عرض کیا : اللہ اوراس کا رسول ہی زیادہ جانتے ہیں فرمایا :یہ کہ تم اپنے بھائی کا اس طرح ذکر کرو جسے و ہ ناپسند کرے۔‘‘ عرض کیاگیا :اگر میرے بھائی میں وہ عیب موجود ہو ،جسےمیں بیان کررہا ہوں؟ آپ نےفرمایا : اگر اس میں یہ خرابی موجود ہے ، جو تم کہہ رہے ہو تو تم نے اس کی غیبت کی اور اگر یہ اس میں موجود نہیں ہے توتم نے اس پر بہتا ن باندھا ہے۔‘‘
یہ بھی صحیح حدیث ہے کہ شب معراج نبیﷺ کا گزر ایسے لوگوں کے پاس ہوا، جن کےتانبےکےناخن تھے اور وہ ان کے ساتھ اپنے چہروں اور سینوں کو زخمی کر رہے تھے۔ آپ نے فرمایا: جبریل! یہ کون لوگ ہیں؟ جبریل علیہ السلام نے بتایا:
هَؤُلَاءِ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ لُحُومَ النَّاسِ، وَيَقَعُونَ فِي أَعْرَاضِهِمْ " (سنن ابی داؤد ،الادب ،باب فی الغیبه ،ح ومسند احمد : 3؍224)
’’یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کا گوشت کھاتے ہیں اوران کی عزتوں کو پامال کرتےتھے۔ ‘‘
اسے امام احمد اور ابو داؤد نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے جید سند کے ساتھ بیان کیا ہے۔ علامہ ابن مفلح فرماتے ہیں کہ اس کی سند صحیح ہے ۔ امام ابو داؤد نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو مرفوع روایت کو بھی بیان کیا ہے، جس کی سند حسن ہے:
«إِنَّ مِنْ أَكْبَرِ الْكَبَائِرِ، اسْتِطَالَةَ الْمَرْءِ فِي عِرْضِ رَجُلٍ مُسْلِمٍ بِغَيْرِ حَقٍّ، وَمِنَ الكَبَائِرِ السَّبَّتَانِ بِالسَّبَّةِ» (سنن ابي داؤد الادب، باب فی الغیبه ، ح : 4877)
’’کبیرہ گناہوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کسی مسلمان آدمی کی عزت پر ناحق زباندرازی کی جائے۔‘‘
آپ ارو دیگر تمام مسلمانوں کے لیے یہ واجب ہے کہ اس شخص کی صحبت کو اختیار نہ کریں ،جو مسلمانوں کی غیبت کرے البتہ اسے نصیحتک ی جائے اور اس کے عیبت کرنے کی مخالفت کی جائۃ کیونکہ نبیﷺ نے فرمایا ہے :
" مَنْ رَأَى مِنْكُمْ مُنْكَرًا فَإِنْ اسْتَطَاعَ أَنْ يُغَيِّرَهُ بِيَدِهِ فَلْيَفْعَلْ " وَقَالَ مَرَّةً: " فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ، (7) فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ بِيَدِهِ فَبِلِسَانِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ بِلِسَانِهِ (8) فَبِقَلْبِهِ، وَذَلِكَ (9) أَضْعَفُ الْإِيمَانِ " (صحیح مسلم ، الایمان ، باب بیان کون النهی عن المنکر من الایمان ۔۔۔۔۔ الخ ، ح 49)
’’تم میں سے جو کوئی برائی کو دیکھے تو اسے ہاتھ سےمٹادے اور اگر اس کی طاقت نہ ہو تو زبان سے سمجھادے او راگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو اسے دل سے برا جانے اور یہ ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے۔‘‘
اوراگر وہ آپ کی بات کہ نہ مانے تواس کی ہم نشینی کو ترک کردو کیونکہ یہ بھی اس برائی کی ترید ہی کے قبیل سے ہے۔ اللہ تعالی تمام مسلمانوں کے حالات درست فرمائے اور انہیں ان اعمال کی توفیق بخشے، جو دنیا و آخرت میں ان کے لیے موجب سعادت ونجات ہوں۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب