سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(599) تاش کے پتوں سے کھیلنا

  • 10973
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2657

سوال

(599) تاش کے پتوں سے کھیلنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کچھ لوگ تاش کے پتوں سے کھیلتے ہیں اور اس طرح کے بعض کھیلوں میں وہ بسا اوقات یہ شرط بھی لگا لیتے ہیں کہ جو شکست کھا گیا وہ اس قدر مال ادا کرے گا یا جوس خرید کر پلائے گا یا اس طرح کی کویئ اور شرط لگالیتے ہیں تو کیا یہ جائز ہے ؟ فتوی عطا فرمائیں اللہ تعالی آپ کو اجر و ثواب سے نوازے گا ، نیز جو لوگ اس طرح کا کھیل کھیلتے ہیں ، انہیں نصیحت بھی فرمائیں ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ کام حرام ہے جو قطعا جائز نہیں ہے کیونکہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا ہے:

«لَا سَبَقَ إِلَّا فِي خُفٍّ، أَوْ حَافِرٍ، أَوْ نَصْلٍ» (سنن ابي داؤد ،الجهاد ، باب في السبق ،ح:  2574 وجامع الترمذي :الجهاد ،باب ماجاء في الرهان والسبق، ح :1700 وسنن النسائي ، الخيل ،باب السبق ح 3616 واللفظ لهما)

’’مقابلہ صرف تیر اندازی یا اونٹ یا گھوڑے دوڑانے میں ہے۔‘‘

مذکورہ بالا صورت بلا شبہ اس جوا کی ہے، جسے اللہ تعالی نے قرآن مجید میں حرام قرار دیا اور شراب او ربتوں کی پوجا کے ساتھ ملا کر ذکر کیا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِنَّمَا الخَمرُ‌ وَالمَيسِرُ‌ وَالأَنصابُ وَالأَزلـٰمُ رِ‌جسٌ مِن عَمَلِ الشَّيطـٰنِ فَاجتَنِبوهُ لَعَلَّكُم تُفلِحونَ ﴿٩٠﴾... سورةالمائدة

’’اے ایمان والو ! شراب اور جوا اور بت او رپانسے ( یہ سب )  ناپاک کام اعمال شیطان سے ہیں، سو ان سے بچتے رہنا تاکہ تم نجات پاؤ۔‘‘

اس طرح کا کھیل کھیلنے والوں کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالی کے حضور توبہ و استغفار کریں اور آئندہ یہ کھیل نہ کھیلیں۔  اس طرح کے کھیل سے جو وہ کمائی کریں گے، وہ حرام ہوگی اور قطعا حلا ل نہیں ہوگی ۔ یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ یہ کھیل جو انسان کو خیر و بھلا ئی کے کاموں سے غافل کردیں، یہ واقعی انسان کے لیے بعت بڑے خسارے کا سبب ہیں کیونکہ ان سے انسان کے بہت سے قیمتی اوقات ضائع ہو جاتے ہیں ۔عقل مند انسان جب اپنے مال کو بے فائدہ ضائع نہیں کرتا تو اسے اپنا قیمتی وقت تو بالاولی ضائع نہیں کرنا چاہیے کیونکہ وقت تو مال سے زیادہ قیمتی چیز ہے اور پھر نوجوانوں اور دیگر لوگوں کا اپنے قیمتی اوقات کو ان جیسے بے فائدہ کھیلوں میں  ضائع کرنا، بے حد حزن و ملال کا سبب ہوگا۔ یہی وجہ کہہ بہت سے علماء نے اس طرح کے کھیلوں کومعاوضہ کے بغیر بھی حرام قرارا دیا ہے اور اگر ان میں معاوضہ کی اس طرح کی کوئی شرط ہو تو پھر ان کے حرام ہونے میں قطعا کوئی شک نہیں ہے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج4ص456

محدث فتویٰ

تبصرے