سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(582) داڑھی منڈوانا ،مذاق اڑانا اور اس کا انکار کرنا

  • 10956
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 2203

سوال

(582) داڑھی منڈوانا ،مذاق اڑانا اور اس کا انکار کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

داڑھی رکھنا نبی اکرم ﷺ سے کی سنت ہے لیکن بہت سے لوگ ہیں جو داڑھی منڈاتے ہیں بعض داڑھی کے بال اکھاڑ دیتے ہیں ، کچھ لوگ داڑھی کے بال کٹوا دیتے ہیں ، بعض اس کا انکار کرتے ہیں ، کچھ یہ کہتے ہیں کہ یہ ایک ایسی سنت ہے کہ عمل کرنے والے کو ثواب ملے گا لیکن عمل نہ کرنے والے کو کوئی گناہ نہیں ہوگا ۔ بعض بیوقوف یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ اگر داڑھی میں کوئی خیر و بھلائی ہوتی تو زیر ناف بال نہ اگتے ۔۔۔ اللہ تعالی ان کا برا کرے ۔۔۔۔ ان مختلف نظریات رکھنے والوں میں سے ہر ایک کے بارے میں کیا حکم ہے اور جو شخص نبی اکرم ﷺ کی کسی سنت کا انکار کرے تو اس کے بارےمیں حکم ہے ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نبی اکرم ﷺ کی سنت صحیح سے یہ ثابت ہے کہ داڑھی رکھنا ، اسے چھوڑ دینا اور پورا پورا رکھنا واجب ہے اور اسے منڈوانا یا کٹوانا حرام ہے ، جیسا کہ صحیح بخاری و صحیح مسلم میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :

" خَالِفُوا المُشْرِكِينَ: وَفِّرُوا اللِّحَى، وَأَحْفُوا الشَّوَارِبَ " (صحيح البخاری، اللباس باب تقیلیم الاظفار ، ح 5892، وصحیح مسلم ، الطهارة ، باب خصال الفطرة ، ح 259)

’’مشرکین کی مخالفت کرو ، داڑھی بڑھاؤ ارو مونچھیں کٹواؤ ۔‘‘

آپ نے یہ بھی فرمایا :

" جُزُّوا الشَّوَارِبَ، وَأَعْفُوا اللِّحَى، وَخَالِفُوا الْمَجُوسَ " (صحيح مسلم ، الطهارة ،باب خصل الفطرة ،ح 260)

مونچھیں منڈواؤ ،داڑھی بڑہاؤ اورمجوسیوں کی مخالفت کرو ۔‘‘

یہ دونوں او ر انکے ہم معنی دیگر تمام احادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ داڑھی رکھنا اور اسے بڑھاناواجب ہے ، اور اسےمنڈوانایاکٹوانا حرام ہے ۔ لہذا جو شخص یہ گمان کرے کہ یہ ایک ایسی سنت ہے کہ عمل کرنے والے کو توثواب ملے گا لیکن عمل نہ کرنے والے کو کوئی گناہ نہیں ہوگا تو اس کی یہ بات غلط اور صحیح احادیث کے مخالف ہے ، کیونکہ اصول ہی ہےکہ امر و جوب کے لیے ہوتا ہے اور نہی تحریم کے لیے ، لہذا کسی کے لیے بھی یہ جائز نہیں کہ وہ ان احادیث صحیحہ سے ثابت ہونے والے اس ظاہر علم کی مخالفت کرے الا یہ کہ اس کے پاس کوئی ایسی دلیل ہو جس کی بنیاد پر ان احادیث کے ظاہر کے خلاف کہا جاسکے ، لیکن نہاں کوئی ایسی دلیل موجود نہیں ہے ، جو ان احادیث کو ان کے ظاہر سے ہٹا دے ۔

امام ترمذی ﷫ نے حضرت ابو ہریرہ ﷜ کی جو یہ احادیث بیان کی ہے کہ نبی کریم ﷺ اپنی داڑھی مبارک کو طویل و عرض سے چھوٹا کر لیا کرتے تھے تو یہ ایک باطل حدیث ہے ۔ رسول اللہ ﷺ سے یہ قطعا ثابت نہیں ہے ۔ اس کی سند میں ایک راوی پر کذب کا الزام ہے ۔

جو شخص داڑھی کا مذاق اڑائے اور اسے زیز ناف بالوں سے تشبیہ دے تو وہ ایک ایسے عظیم منکر کا ارتکاب کرتا ہے جو اسے دائزۂ اسلا م سے خارج او رمرتد قرار دے دیتا ہے ۔ اس لیے کہ کسی بھی چیز کا مذاق اڑانا جو کتاب اللہ سے یا حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی سنت سےثابت ہو ،کفر اور ارتداد ہوتا ہے کیونکہ ارشاد باری تعالی ہے :

﴿قُل أَبِاللَّهِ وَءايـٰتِهِ وَرَ‌سولِهِ كُنتُم تَستَهزِءونَ ﴿٦٥ لا تَعتَذِر‌وا قَد كَفَر‌تُم بَعدَ إيمـٰنِكُم ۚ...﴿٦٦﴾... سورة التوبة

’’کہو کیا تم اللہ اور اس کی آیتوں او راس کے رسول سے ہنسی کرتے تھے ؟ بہانے مت بناؤ ،تم ایمان لانے کے بعد کافر ہو چکے ہو ۔‘‘

ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالی ہمیں ،تمہیں اور تمام مسلمانوں کو ہدایت وتوفیق عطافرمائے اور گمراہ کن فتنوں سے محفوظ رکھے ۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج4ص440

محدث فتویٰ

تبصرے