سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(581) آپ داڑھی بڑھائیں رکھیں ،وہ گناہ گار ہیں

  • 10955
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1498

سوال

(581) آپ داڑھی بڑھائیں رکھیں ،وہ گناہ گار ہیں

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

الحمد للہ ! میں نے داڑھی رکھی ہوئی ہے لیکن میرے رشتہ داروں یا جاننے والوںمیں سے جو شخص بھی مجھ سے ملتا ہے، میری داڑھی کامذاق اڑاتا ہے اورکہتاہے کہ داڑھی چھوٹی کروالوجبکہ میں نے مصمم ارادہ کر رکھاہے کہ میں پوری داڑھی رکھوںگا ۔ کیا داڑھی کٹوانا جائز ہے یا میں اپنی داڑھی پوری ہی رہنے دوں اور ان کی باتوں کودیوار پر دے ماروں ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آپ کے لیے یہی بہتر ہے کہ رسول اللہﷺ کی اطاعت کرتے ہوئے اور آپ کے حکم کو تسلیم کرتے ہوئے داڑھی پوری رکھیں ۔ باقی رہی لوگوں کی باتیں تو انہیں دیوار پر دے ماریں ۔ ان کی ان باتوں کی تردید اور انہین اللہ تعالی ا خوف یا د دلائیں ۔ ان لوگوں کے لیے اس طرح کی باتیں کرنا جائز نہیں ہے ، بلکہ ان کا یہ کام در حقیقت شیطان کی نیابت ہے۔ کیونکہ اس طرح یہ لوگ شیطان کےنائب ہیں ، جو اللہ تعالی کی نافرمانی کی طرف دعوت دیتے ہیں ۔ اللہ تعالی ہمیں اس سے بچائے۔ رسول اللہﷺ نے تو فرمایا ہے :

" خَالِفُوا المُشْرِكِينَ: وَفِّرُوا اللِّحَى، وَأَحْفُوا الشَّوَارِبَ " (صحيح البخاري، اللباس باب تقیلیم الاظفار ، ح 5892، وصحیح مسلم ، الطهارة ، باب خصال الفطرة ، ح 259)

’’مشرکین کی مخالفت کرو ، داڑھی بڑھاؤ ارو مونچھیں کٹواؤ ۔‘‘

آپ نے یہ بھی فرمایا :

" جُزُّوا الشَّوَارِبَ، وَأَعْفُوا اللِّحَى، وَخَالِفُوا الْمَجُوسَ " (صحيح مسلم * الطهارة ،باب خصل الفطرة ،ح 260)

’’مونچھیں منڈواؤ ،داڑھی بڑہاؤ اورمجسیوں کی مخالفت کرو ۔‘‘

آپ نے یہ بھی فرمایا :

’’ووفروا اللحی‘‘ (صحیح البخاری ، اللباس ، باب تقلیم الاظفار ، ح 5892)

’’داڑھی پوری رکھو۔‘‘

لہذا واجب یہ ہے کہ داڑھی کو چھوڑ دیا جائے ، اسے بڑھایا جائے اور اسے پورا رکھا جائے اور ان فاسقوں کی بات نہ مانی جائے ، جو اس کے اکٹانے یامنڈوانے کی دعوت دیتے ہیں ۔اللہ تعالی ہمیں محفوظ رکھے ۔ ان کی یہ بات اس حدیث کی مصداق ہے ، جس میں یہ ہے کہ آخری زمانےمیں کچھ ےایسے شیطان آئیں گے ،جو اللہ تعالی کی نافرمانیوں اور محرمات کے ارتکاب کی دعوت دیں گے ۔ اسی طرح حدیث حذیفہ میں ہے کہ جب حضرت حدیفہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہﷺ سے اس شر کے بارےمیں پوچھا جو بعد میں واقع ہوگا تو آپ نے فرمایا: ’’ہاں یہ شربعد کے آخری دور میں واقع ہوگا اور پھر اس دور میں جہنم کے دروازوں پر داعی ہونگے ، جس نے ان کی بات کو قبول کیا تواسے وہ جہنم رسید کردیں گے ۔‘‘ میں نے عرض کیا : یا رسو ل اللہ ﷺ ! ہمارے لیے ان کی کوئی علامت بیان فرمادیں تو آپ نے فرمایا :’’لوگ ہم میں سے ہونگے اور ہماری بات کامذاق اڑائیں گے۔ (صحیح البخاري ، المناقب ، باب علامات النبوة فی الاسلا م ، حدیث 3606وصحیح المسلم ، الامارة ، بابا وجب ملازمة جماعة المسلمین عند ظہور الفتن ، حدیث 1847)

اللہ تعالی ہمیں محفوظ رکھے ۔یہ اور اس طرح کے دیگر لوگ انہی میں سے ہیں جن کا رسول اللہﷺ نے ذکر فرمایا ہے۔ یہ لوگ جہنم کے داعی ہیں۔ کسی مومن کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ ان کی بات کوقبول کرے یاان کی طرف مائل ہو بلکہ اسے چاہیے کہ ان کی مخالفت اور نافرمانی کرے اور اللہ تعالی اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت و فرماں برداری کو اختیار کرے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج4ص439

محدث فتویٰ

تبصرے