سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(298) کیا فرض نماز کی اقامت کے بعد نوافل جائز ہیں؟

  • 1093
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1326

سوال

(298) کیا فرض نماز کی اقامت کے بعد نوافل جائز ہیں؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جب نمازی نے نفل نماز شروع کر رکھی ہو اور فرض نماز کی اقامت ہو جائے تو کیا کیا جائے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

جب فرض نماز کی اقامت ہو جائے اور آپ نے نفل نماز شروع کر رکھی ہو تو بعض اہل علم کا قول ہے کہ آپ پر واجب ہے کہ آپ فوراً نماز کو توڑ دیں، خواہ آخری تشہد ہی میں کیوں نہ ہوں۔ بعض علماء کا قول یہ ہے کہ آپ نماز نہ توڑیں الایہ کہ یہ اندیشہ ہو کہ امام آپ کے تکبیر تحریمہ کہنے سے پہلے سلام پھیر دے گا۔ یہ دونوں قول متعارض ہیں، یعنی ایک قول یہ ہے کہ جب اقامت ہو جائے تو آپ نفل نماز فوراً توڑ دیں اور دوسرا قول یہ ہے کہ نماز کو جاری رکھیں اور اسے نہ توڑیں الایہ کہ خدشہ ہو کہ آپ کے تکبیر تحریمہ کہنے سے پہلے امام سلام پھیر دے گا۔ میرے نزدیک اس سلسلہ میں معتدل قول یہ ہے کہ جب اقامت ہو جائے اور آپ دوسری رکعت میں ہوں تو اس رکعت کو خفیف سے انداز میں مکمل کریں اور اگر آپ ابھی پہلی رکعت ہی میں ہوں، تو نماز توڑ دیں کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ہے:

«مَنْ اَدْرَکَ رَکْعَةً مِنَ الصَّلَاةِ فَقَدْ اَدْرَکَ الصَّلَاةَ» (صحيح البخاري، المواقيت، باب من ادرک من الصلاة رکعة، ح: ۵۸۰ وصحيح مسلم، المساجد، باب من ادرک رکعة من الصلاة فقد ادرک تلک الصلاة، ح: ۶۰۷)

’’جس نے نماز کی ایک رکعت پا لی، اس نے نماز کو پا لیا۔‘‘

 اگر آپ نے اقامت سے پہلے ایک رکعت پڑھ لی ہے تو آپ نے اسے ممانعت سے قبل پڑھا ہے، اس بنیادپرآپ نے نماز کو پا لیا اور ساری نماز غیر ممنوع کے ضمن میں شامل ہوگئی، یعنی ممانعت کی ذیل میں نہیں آئی، لہٰذا آپ اسے مکمل کریں لیکن خفیف طور پر کیونکہ فرض نماز کے ایک جز کو پا لینا نفل کے ایک جز کے پا لینے سے بہتر ہے۔(1)

اور اگر آپ پہلی رکعت میں ہوں تو آپ نے اتنا وقت نہیں پایا، جس میں آپ نماز کو پا لیتے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ہے:

«مَنْ اَدْرَکَ رَکْعَةً مِنَ الصَّلَاةِ فَقَدْ اَدْرَکَ الصَّلَاةَ» (صحيح البخاري، المواقيت، باب من ادرک من الصلاة رکعة، ح: ۵۸۰ وصحيح مسلم، المساجد، باب من ادرک رکعة من الصلاة فقد ادرک تلک الصلاة، ح: ۶۰۷)

’’جس نے نماز کی ایک رکعت پا لی، اس نے نماز کو پا لیا۔‘‘

اس بنیادپرآپ اپنی نماز کو توڑ دیں گے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ہے:

«إِذَا أُقِيمَتْ الصَّلٰوةُ فَـلَا صَلٰوةَ إِلَّا الْمَکْتُوبَةُ» (صحيح مسلم، صلاة المسافرين، باب کراهة الشروع فی نافلة بعد شروح الموذن… ح:۷۱۰)

’’جب فرض نماز کے لیے اقامت کہہ دی جائے تو پھر فرض نماز کے سوا اور کوئی نماز نہیں ہوتی۔‘‘

وباللہ التوفیق


(1)جب یہ تسلیم ہے کہ فرض نماز کا ایک جز، نفل کے ایک جز سے بہتر ہے، تو پھر یہ کہنا کیونکر صحیح ہوگا کہ ایک رکعت مکمل پڑھ لینے کی صورت میں اپنی نفل نماز اقامت کے بعد بھی پوری کرے؟ بلکہ اس اصول کا تقاضا تو یہ ہے کہ اقامت ہو جانے کے بعد فرض نماز ہی کو سب سے زیادہ اہمیت دی جائے اور اگر نفلی نماز پوری کرنے کی صورت میں جماعت کی ایک رکعت بھی فوت ہونے کا اندیشہ ہو، تو اس کے لیے نفلی نماز کا جاری رکھنا جائز نہیں ہوگا، بلکہ اس کو توڑ کر جماعت میں شامل ہونا ضروری ہوگا۔ البتہ آخری تشہد یا سجدے میں اقامت ہو جائے، تو پھر جماعت کے فوت ہونے کا اندیشہ نہیں ہوتا، اس لیے اس صورت میں زیادہ سے زیادہ اس کے لیے نفلی نماز پوری کرنے کی گنجائش نکل سکتی ہے۔

 

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ310

محدث فتویٰ

تبصرے