السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک صا حب کو شا دی کا کارڈ دیا تو انہو ں نے پو چھاکہ نکا ح کہاں ہے۔ ہم نے کہا: مسجد میں ہے۔ وہ کہنے لگا کہمسجد میں نکا ح کر نا نبی کریم ؐ سے ثا بت نہیں ہے اور یہ یہو دیو ں کا کا م ہے۔ مہر با نی فر ما کر قرآن و حد یث کی رو شنی میں وضاحت فرمائیں۔؟ الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤالوعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته! الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!اہل علم کے راجح موقف کے مطابق مسجد میں نکاح کرنا ایک جائز عمل ہے ۔ حدیث نبوی ہے۔ ( أعلنوا هذا النكاح واجعلوه في المساجد واضربوا عليه بالدفوف ) .”اس نکاح کا اعلان کرو، اور اسے مسجد وں میں منعقد کرو، اور اس نکاح پر دف بجاوٴ۔“ فقد رواه الترمذي ( 1089 ) ، وهو حديث ضعيف ، ضعفه الترمذي ، وابن حجر ، والألباني ، وغيرهم لیکن یہ حدیث ضعیف ہے ۔اگر یہ حدیث صحیح ہوتی تو مسجد میں نکاح کرنا ایک مستحب عمل بن جاتا اسی طرح کی ہی بخاری ایک دوسری روایت بھی ثابت ہےکہ ایک عورت نے اپنے آپ کو نبی کریم پر پیش کیا کہ آپ اس سے نکاح کر لیں،آپ نے ضرورت نہ ہونے کی بناء پر دیگر صحابہ سے پوچھا کہ اس سے کون نکاح کرنا چاہتا ہے،ایک صحابی نے اپنی خواہش کا اظہار فرمایا توآپ نے قرآن مجید کی چندسورتوں کے دبلے میں اس سے اس کا نکاح کر دیا ۔(بخاری:5029) حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ یہ سارا واقعہ مسجد میں پیش آیا۔ الفتح الباري شرح صحيح البخاري(9/206 اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مسجد میں نکاح کرنا شرعا جائز اور درست عمل ہے ،کیونکہ مسجد ایک مبارک اور مقدس مقام ہے،جمہور احناف ،شوافع ،حنابلہ اور بعض مالکیہ مسجد میں نکاح کرنے کو مستحب قرار دیتے ہیں۔لہذا اس کو یہودیوں کا فعل قرار دینا جہالت اور لاعلمی ہے۔ . ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصوابفتوی کمیٹیمحدث فتوی |