سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(542) ٹیلی وژن سے نشر کی جانے والی موسیقی

  • 10911
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1183

سوال

(542) ٹیلی وژن سے نشر کی جانے والی موسیقی

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا کسی مسلمان کے لیے گانے اور موسیقی کو سننا حرام ہے اور دلیل یہ دی جائے کہ یہ تو ریڈیو اور ٹیلی وژن سے نشر کی جا رہی ہے،ہم تو اسے استعمال نہیں کر رہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

گانوں ،ساز،اور دیگر آلات موسیقی کو سننا جائز نہیں ہے کیونکہ یہ اللہ کے ذکر اور نماز سے روکتے ہیں اور ان کا سننا دل کو بیمار اور سخت کر دیتا ہے۔کتاب اللہ اور سنت رسول سے  ثابت ہے کہ یہ چیزیں  حرام ہیں قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے:

﴿وَمِنَ النّاسِ مَن يَشتَر‌ى لَهوَ الحَديثِ لِيُضِلَّ عَن سَبيلِ اللَّهِ بِغَيرِ‌ عِلمٍ ...﴿٦﴾... سورةلقمان

’’اور لوگوں میں بعض ایسا ہے جو بے حودہ حکایتیں خریدتا یےتاکہ [لوگوں] کو بغیر علم کے اللہ کے راستے سے گمراہ کردے۔‘‘

مفسرین اور غیر مفسرین اور اکثر علماء نے لکھا ہے کہ "لہو الحدیث سے مراد گانا اور آلات موسیقی ہے،حضرت الامام بخاری نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے کہ:کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

لیکونن من امتی اقوام یستحلون ،الحر،والحریر،الخمر، والمعازف۔[صحیح بخاری۔ الاشربة، باب ،ما جاء فیمن یستحل الخمر یسمیه بغیر اسمه ،ح:۵۵۹۰]

’’میری امت میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوں گے جو زنا،ریشم،شراب اور آلات موسیقی کو حلال سمجھیں گے۔‘‘

اس حدیث میں لفظ "الحر؛ سے مراد حرام شرمگاہ ہے۔ اور "الحریر" [ریشم] ایک معروف چیز کا نام ہے جس کا استعمال مردوں کے لیے حرام ہے،" الخمر" بھی معروف ہے ہر نشہ آور چیز کو خمر کہتے ہیں ،جوکہ مردوں،عورتوں  بچوں اور بوڑھوں تمام مسلمانوں  کے لیے حرام ہے،اس کا استعمال گناہ کبیرہ ہے، "معازف" سے مراد  گانا،،طبلہ۔ سارنگی،رباب اور اس طرح کے دیگر آلات موسیقی ہیں،اس موضوع سے متعلق اور بھی بہت سی آیات اور احادیث ہیں ،جنہیں علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "اغاثة اللفھان من مصائد الشیطان" میں ذکر فرمایا ہے۔ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالی تمام مسلمانوں کو ہدایت و توفیق عطا فرمائے اور انہیں اپنے غضب و ناراضی کے اسباب سے بچائے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج4ص412

محدث فتویٰ

تبصرے