السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جب کسی شخص کے پاس ایک یتیم ہو 'یتیم کے پاس مال بھی ہو اور وہ شخص یتیم کی مصلحتوں کا خیال بھی رکھتا ہو تو کیا اس کے لیے یتیم کے مال میں تصرف کرنا جائز ہے ' جب کہ یتیم کا اصل مال محفوظ ہو اور وہ اسے واپس بھی لوٹادے ؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے یتیموں کی اصلاح کا حکم دیا ہے اور احسن طریقوں کے بغیر ان کے اموال کے پاس جانے سے منع کرتے ہوئے فرمایا ہے:
﴿وَيَسـَٔلونَكَ عَنِ اليَتـٰمىٰ ۖ قُل إِصلاحٌ لَهُم خَيرٌ ۖ وَإِن تُخالِطوهُم فَإِخوٰنُكُم ۚ وَاللَّهُ يَعلَمُ المُفسِدَ مِنَ المُصلِحِ...﴿٢٢٠﴾... سورةالبقرة
’’اور آپ سے یتیموں کے بارے میں بھی دریافت کرتے ہیں۔کہہ دیجئے !ان کی( حالت کی ) اصلاح بہت اچھا کام ہے اور اگر تم ان سے مل جل کر رہنا ( یعنی خرچ اکھٹا رکھنا) چاہو تو وہ تمہارے بھائی ہیں اور اللہ خوب جانتا ہے کہ خرابی کرنے والا کون ہے اوراصلاح کرنےوالا کون۔‘‘
اور فرمایا :
﴿وَلا تَقرَبوا مالَ اليَتيمِ إِلّا بِالَّتى هِىَ أَحسَنُ حَتّىٰ يَبلُغَ أَشُدَّهُ ۚ...﴿٣٤﴾... سورةالاسراء
’’اور يتيم کے مال کے پاس بھی نہ جانا مگر ایسے طریق سے کہ وہ بہت ہی پسندیدہ یہاں تک کہ وہ جوانی کو پہنچ جائے۔‘‘
پس یتیم کے والی (اور سرپرست ) کے لیے یہ واجب ہے کہ وہ ان دونوں آیتوں کے مطابق عمل کرے 'یعنی یتیموں کے اموال کی اصلاح کی جائے اور ان کے بڑھانے اور ان کی حفاظت کرنے میں کوئی دقیقہ فرد گزاشت نہ کیاجائے خواہ انہیں تجارت میں لگافیا جائے یا کسی قابل اعتماد شخص کو دیے دیے جائیں' جو نفع میں اپنے نصف حصہ وغیرہ پر جیسا کہ وہاں کا عرف ہو 'انہیں تجارت میں لگائے اور اگر وہ سارا نفع ہی یتیم کو دے دے تو یہ بہت بہتر اور افضل ہے ۔باقی رہا یتیم کے ولی(اور سرپرست ) کا یتیم کے اموال میں ایسا تصرف کرنا جس سے یتیم کی بجائے خود اسے فائدہ پہنچے 'اس کی ضرورتیں پوری ہوں 'اور اس کی تجارت پروان چڑھے توجیسا کہ ظاہر ہے یہ جائز نہیں کیونکہ یہ یتیم کے مال کی اصلاح نہیں ہے اور نہ احسن طریقے سے اس کے مال کے قریب جانا ہے اور اگر وہ مال کو اس لیے خرچ کرے جب کہ استعمال نہ کرنے کی صورت میں مال کے ضائع یا چوری ہونے کا اندیشہ ہو اور کوئی ایسا قابل اعتماد شخص بھی نہ ہو جسے مال بطور مضاربت دیا جاسکے تو ایسی صورت میں مال کے ضائع یا چوری ہونے کا اندیشہ ہو اور کوئی ایسا قابل اعتماد شخص بھی نہ ہو جسے مال بطور مضاربت دیا جاسکے تو ایسی صورت میں مال کو خرچ کرنا اصلاح اور مال یتیم کی حفاظت ہوگا بشرطیکہ والی مال دار ہو اور اس کےپاس مال باقی رہنے کی صورت میں خطرے کی کوئی بات نہ ہو خلاصہ کلام یہ ہے کہ ئتیم کے ولی کے کے لیے واجب یہ ہے کہ وہ ایسے طریق کار کو اختیار کرے' جس میں یتیم کی بے حد اصلاح ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ مفسد کون ہے اور مصلح کون اور پھر وہ ہرایک کو اس کے عمل کے مطابق جزادے گا۔اگر اچھے عمل کیا تو جزائے خیر سے نوازے گا اور اگر برا عمل کیا تو بری سزا دے گا۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اور تمہیں اپنی رضا کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب