سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(432) شراب کی فیکٹریوں میں کام کرنا

  • 10797
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1472

سوال

(432) شراب کی فیکٹریوں میں کام کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جو مسلمان شراب  یا منشیات  بیچتا ہو'کیا ہم اسے مسلمان کہہ سکتے ہیں یا نہیں؟ جو مسلمان کسی شراب کی فیکٹری میں کام  کرتا ہو کیا اس کے لیے واجب ہے کہ وہ اس کام کو چھوڑدے خواہ  اسے اس کے سوا کوئی دوسرا کام بھی نہ ملے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شراب اور دیگر تمام محرمات کو  فروخت کرنا بہت بڑا گناہ ہے 'اسی طرح شراب  کی فیکٹر ی  میں کام کرنا بھی حرام اور منکر کام ہے اور ارشا باری تعالیٰ ہے:

﴿وَتَعاوَنوا عَلَى البِرِّ‌ وَالتَّقوىٰ ۖ وَلا تَعاوَنوا عَلَى الإِثمِ وَالعُدو‌ٰنِ ۚ... ﴿٢﴾... سورةالمائدة

(اور دیکھو!) تم نیکی  اور پرہیزگاری  کے کاموں میں ایک دوسرے  کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم  کے کاموں میں  مدد نہ کیا کرو۔‘‘

اور اس میں کوئی شک نہیں کہ شراب 'منشیات اور سگریٹ کی فروخت گناہ اور ظلم کی باتوں میں تعاون ہے'اسی طرح شراب کی فیکٹریوں میں کام کرنا   بھی  گناہ اور ظلم  کی باتوں میں تعاون ہے ۔اور ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِنَّمَا الخَمرُ‌ وَالمَيسِرُ‌ وَالأَنصابُ وَالأَزلـٰمُ رِ‌جسٌ مِن عَمَلِ الشَّيطـٰنِ فَاجتَنِبوهُ لَعَلَّكُم تُفلِحونَ ﴿٩٠ إِنَّما يُر‌يدُ الشَّيطـٰنُ أَن يوقِعَ بَينَكُمُ العَد‌ٰوَةَ وَالبَغضاءَ فِى الخَمرِ‌ وَالمَيسِرِ‌ وَيَصُدَّكُم عَن ذِكرِ‌ اللَّهِ وَعَنِ الصَّلو‌ٰةِ ۖ فَهَل أَنتُم مُنتَهونَ ﴿٩١﴾... سورةالمائدة

’’اے ایمان والو! شراب اور جوا اور بت  اور پانسے (یہ سب) ناپاک عمل شیطان (شیطانی کام) میں سے  ہیں سوان سے بچتے رہنا تاکہ نجات پاؤ۔ شیطان چاہتا ہے کہ  شراب اور جوئے کے سبب  تمہارے آپس میں دشمنی  اور رنجش  ڈلوادے  اور تمہیں اللہ کی یاد  سے اور نماز سے روک دے  توتم  کو (ان کاموں سے) باز نہیں رہنا چاہیے۔‘‘

صحیح حدیث سے  یہ ثابت ہے کہ  رسول اللہ ﷺ  نے شراب پر 'اس کے پینے والے پر  'نچوڑنے والے پر'جس کے لیے نچوڑی گئی ہو'اس کے اٹھانے  والے پر اور جس کے لیے اٹگا کر لے جائے گئی ہو 'اس کے بیچنے اور خریدنے  والے پر اور اس کی  قیمت  کھانے والے پر لعنت  فرمائی ہے۔رسول اللہ ﷺ کی صحیح حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے:

(ان علي الله عهداً ّلمن يشرب المسكر ‘ان يسقيه من طينة الخبال  قالوا:يارسول الله ! وما طينه الخبال ؟قال : عرق اهل النار او عصارة اهل النار) (صحيح مسلم‘الاشربة ‘باب بيان ان  كل  مسكر  خمر‘وان كل خمر  حرام‘ ح:٢—٢)

’’اللہ تعالیٰ نے اس بات کا ذمہ لے رکھا ہے  کہ جو شخص  کوئی نشہ آور  مشروب پیے گا تو ہ اسے" طينة الخبال  " پلائے گاَصحابہ کرام  رضی اللہ عنہ  نے عرض کیا: یارسول اللہ ! طينة الخبال   سے کیا مراد ہے؟ آپ نے فرمایا: اس سے مراد جہنمیوں کا پسینہ  ہے یا آپ نے فرمایا کہ اس سے مراد جہنمیوں کی پیپ ہے ۔‘‘

شراب بیچنے والے کے بارے میں حکم یہ ہے کہ  وہ نافرمان 'فاسق اور ناقص الایمان ہے ۔ قیامت کے دن اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد  ہے'وہ چاہے تو اسے معاف فرمادے  یا اسے سزا دے' جب کہ وہ توبہ کرنے سے پہلے  مرجائے۔اہلسنت  والجماعت  کا یہی عقیدہ ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿إِنَّ اللَّهَ لا يَغفِرُ‌ أَن يُشرَ‌كَ بِهِ وَيَغفِرُ‌ ما دونَ ذ‌ٰلِكَ لِمَن يَشاءُ ۚ...﴿١١٦﴾... سورةالنساء

’’اللہ  گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے اور اس  کے سوا اور گناہ جس کو  چاہیے معاف کردے۔‘‘

یہ حکم اس صورت میں ہے کہ ' جب وہ شراب بیچنے کو حلال نہ سمجھتا ہو اور اگر وہ  اسے حلال سمجھتا ہو  تو پھر وہ کافر ہے  اور اس صورت میں اگر وہ مرجائے تو تمام علماء کےنزدیک  نہ اسے غسل  دیا جائے گا اورنہ اس کا جنازہ پڑھا جائے گا کیونکہ اس صورت میں  اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہ ﷺ کی تکذیب کرنے  والا ہے۔

 اس طرح جو شخصزنا یا لواطت یا سود  یا دیگر  متفق علیہ محرمات  مثلاً والدین کی نافرمانی 'قطع رحمی اور ناحق  قتل کو حلال سمجھے تو  اس کے بارے میں بھی یہی حکم ہے  اور اگر   کوئی شخص ان میں سے  کسی کام کو کرے اور یہ سمجھے  کہ یہ حرام ہے  اور اس کےکرنے  سے وہ اللہ تعالیٰ کا نافرمان ہے ۔اس سے وہ کافر نہیں ہوگا بلکہ فاسق ہوگا اور اگر  موت سے پہلے  توبہ نہ کرے  تو آخرت میں اس  کا معاملہ اللہ کے سپرد  ہوگا  جیسا کہ قبل ازیں شرزبی کے بارے میں حکم بیان کیا جاچکا ہے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج4ص332

محدث فتویٰ

تبصرے