سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(398) اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کی مدد کا ذمہ اٹھا یا لیکن۔۔۔۔

  • 10763
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1656

سوال

(398) اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کی مدد کا ذمہ اٹھا یا لیکن۔۔۔۔

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 بعض لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کی مدد کا ذمہ اٹھایا ہے ۔ تو پھر خدمت اسلام کی خاطر  مبلغین جو کام  کرتے ہیں تو یہ عبث ہے 'اس کی کوئی ضرورت نہیں ۔ سوال یہ ہے کہ ان لوگوں کو کس طرح جواب دیا جائے ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ان لوگوں کا جواب  بہت آسان ہے کیونکہ ان کا سوال انکار اسباب پر مبنی ہے اور اسباب کا انکار دین کے اعتبار سے گمراہی  اور عقل کے اعتبار سے بے وقوفی کی دلیل ہے۔ بے شک اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اس دین کی حفاظت کا ذمہ اٹھایا ہے لیکن  یہ ذمہ اسباب کے ساتھ مشروط ہے اور مبلغین کی دین کی نشرواشاعت ' تبلیغ اور اس کی طرف  دعوت کے لیے یہ سرگرمیاں اسباب ہی  تو ہیں،ان لوگوں کی یہ بات اسی طرح ہے کہ جیسے کوئی یہ کہے کہ شادی نہ کرو'اگر تمہارے مقدر میں  بیٹا ہوگا تو تمہیں مل  جائے گا یا کوئی یہ کہے کہ محنت اور مشقت کوئی کام نہ کرو 'اگر تمہارے مقدر میں رزق ہوا تو  وہ تمہیں ضرور مل جائے گا ۔ ہم جانتے ہیں کہ  اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے جب یہ فرمایا ہے:

﴿إِنّا نَحنُ نَزَّلنَا الذِّكرَ‌ وَإِنّا لَهُ لَحـٰفِظونَ ﴿٩﴾... سورةالحجر

’’بے شک یہ( کتاب ) نصیحت ہم نے اتاری ہے اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں۔‘‘

تو  اس نے یہ اس لیے فرمایا ہے کہ وہ حکیم ہے اور اسے علم ہے کہ اشیاء'اسباب ہی کے ساتھ ہوتی ہیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ایسے اسباب پیدا فرماتا رہے گا جن کی وجہ سے یہ دین محفوظ رہے گا۔

یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں  علمائے سلف نے جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کو عقائد اور اعمال  کی بدعات سے محفوظ رکھا 'تبلیغ بھی کی 'کتابیں بھی لکھیں اور لوگوں کے سامنے دین کو بیان بھی کیا ۔لہذا اللہ تعالیٰ نے ہم  پر جو یہ فرض  عائد کیا ہے کہ ہم دین کا دفاع اور اس کی حمایت کریں اور اسے  بندگان الہٰی تک  پہنچائیں 'تو ہمیں بھی  اس فرض کو ادا کرنے میں کوئی دقیقہ  فروا نہیں  کرنا چاہیے تاکہ  ہمارا یہ دین محفوظ رہے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج4ص308

محدث فتویٰ

تبصرے