سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(278) کیا لیلۃ القدر ہر سال ایک ہی رات میں آتی ہے؟

  • 1076
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1905

سوال

(278) کیا لیلۃ القدر ہر سال ایک ہی رات میں آتی ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا یہ ثابت ہے کہ لیلۃ القدر ہر سال کسی ایک مخصوص رات میں ہوتی ہے یا یہ ایک رات سے دوسری رات میں منتقل ہوتی رہتی ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

اس میں تو کچھ شک نہیں کہ لیلۃ القدر رمضان ہی کی ایک رات ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿إِنّا أَنزَلنـهُ فى لَيلَةِ القَدرِ﴿١﴾... سورة القدر

’’بے شک ہم نے اس (قرآن) کو شب قدر میں نازل (کرنا شروع) کیا۔‘‘

اور دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے کہ اس نے قرآن مجید کو رمضان میں نازل فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿شَهرُ رَمَضانَ الَّذى أُنزِلَ فيهِ القُرءانُ...﴿١٨٥﴾... سورة البقرة

’’رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا۔‘‘

نبی صلی اللہ علیہ وسلم  لیلۃ القدر کی تلاش کے لیے رمضان کے عشرہ اول کا اعتکاف کیا کرتے تھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے درمیان عشرے کا اعتکاف فرمایا اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسے رمضان کے آخری عشرے میں پایا۔ اس کے علاوہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  نے مسلسل یہ خواب دیکھے کہ یہ رمضان کی آخری سات راتوں میں سے ایک رات ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

«أَرَی رُؤْيَاکُمْ قَدْ تَوَاطَأَتْ فِی الْسبعِ الْأَوَاخِرِ فَمَنْ کَانَ مُتَحَرِّيهَا فَلْيَتَحَرَّهَا فی السبعَ ِ الْأَوَاخِرِ» (صحيح البخاري، فضل ليلة القدر، باب التماس ليلة القدر، ح: ۲۰۱۵ وصحيح مسلم، الصيام، باب فضل ليلة القدر، ح:۱۱۶۵)

’’میں دیکھتا ہوں کہ آخری سات راتوں کے بارے میں لوگوں کو مسلسل خواب دکھے ہیں، لہٰذا جو لیلۃ القدرکو تلاش کرنا چاہے، وہ آخری سات راتوں میں اسے تلاش کرے۔‘‘

یہ وہ کم سے کم مدت ہے، جولیلۃ القدر کے کسی معین زمانے میں حصر کے بارے میں کہی گئی ہے۔

جب لیلۃ القدر کے بارے میں وارد دلائل پر ہم غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک رات سے دوسری رات میں منتقل ہوتی رہتی ہے اور یہ ہر سال کسی ایک معین رات ہی میں نہیں ہوتی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کو خواب میں لیلۃ القدر دکھائی گئی کہ آپ اس کی صبح پانی اور مٹی میں سجدہ کریں گے اور یہ اکیسویں رات تھی۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ہے:

«تَحَرَّوْا لَيْلَةَ الْقَدْرِ فِیَ الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ» (صحيح البخاري، فضل ليلة القدر، باب تحری ليلة القدر فی الوتر من العشر الاواخر، ح:۲۰۱۷)

’’لیلۃ القدر کو رمضان کے آخری عشرے کی راتوں میں تلاش کرو۔‘‘

یہ حدیث بھی اس بات کی دلیل ہے کہ یہ کسی ایک رات پر منحصر نہیں ہے۔ ان تمام دلائل میں تطبیق صورت یہ ہو سکتی ہے کہ آخری عشرے کی ہر رات انسان یہ امید کر سکتا ہے کہ شاید یہ لیلۃ القدر ہو۔ جو شخص بھی ایمان اور حصول ثواب کی نیت سے لیلۃ القدر میں قیام کرے گا، اسے اجر و ثواب ضرور مل کر رہے گا، خواہ اسے اس رات کے بارے میں معلوم ہو یا نہ ہو کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا ہے:

«مَنْ قامْ لَيْلَةَ الْقَدْرِ إِيمَانًا وَاِحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ» (صحيح البخاري، الصوم، باب من صام رمضان ايمانا واحتسابا… ح: ۱۹۰۱، وصحيح مسلم، صلاة المسافرين، باب الترغيب فی قيام رمضان… ح:۷۶۰)

’’جو شخص ایمان اور حصول ثواب کی نیت سے لیلۃ القدر کا قیام کرے تو اس کے سابقہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔‘‘

آپؐ نے اس حدیث میں یہ فرمایا کہ جب اسے یہ معلوم ہو کہ اس نے لیلۃ القدر کو پا لیا ہے۔ گویا کہ لیلۃ القدر کے حصول ثواب کے لیے یہ شرط نہیں کہ عامل کو اس بات کا علم بھی ہو کہ یہ لیلۃ القدر ہے، البتہ اگر کوئی شخص رمضان کے سارے آخری عشرے کا ایمان اور حصول ثواب کی نیت سے قیام کرے تو ہم یہ بات پورے وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ اس نے لیلۃ القدر کو پا لیا، خواہ یہ رات اس عشرہ کے ابتدائی حصے میں ہو یا درمیانی حصے میں ہو یا آخری حصے میں۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ298

محدث فتویٰ

تبصرے