سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(276) نماز تراویح کے احکام اور رکعات کی تعداد کا بیان

  • 1074
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 4984

سوال

(276) نماز تراویح کے احکام اور رکعات کی تعداد کا بیان

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نماز تراویح کے بارے میں کیا حکم ہے اور اس کی رکعات کتنی ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

نماز تراویح سنت ہے اور یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے ثابت ہے۔ صحیحین میں حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا  سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک رات مسجد میں نماز اداکی۔ لوگوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ نماز پڑھی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے دوسری رات نماز پڑھی اور لوگوں کی بھی کثیر تعداد نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ نماز ادا کی، پھر لوگ اسی طرح تیسری یا چوتھی رات میں بھی جمع ہوئے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  تشریف نہ لائے اور جب صبح ہوئی تو آپؐ نے فرمایا:

«قَدْ رَأَيْتُ الَّذِیْ صَنَعْتُمْ فَلَمْ يَمْنَعْنِیْ مِنَ الْخُرُوْجِ اِلَيْکُمْ اِلاَّ اَنِّیْ خَشِيْتُ اَنْ تُفْرَضَ عَلَيْکُمْ» (صحيح مسلم، صلاة المسافرين، باب الترغيب فی قيام رمضان… ح۷۶۱)

’’تم لوگوں نے جو کیا میں نے اسے دیکھا ہے اور گھر سے میں اس لیے نہیں نکلا کہ مجھے یہ خدشہ لاحق ہوا کہ کہیں اس نماز کو تم پر فرض قرار نہ دے دیا جائے۔‘‘

اس واقعہ کا تعلق رمضان سے ہے۔ نماز تراویح کی رکعات کی تعداد گیارہ ہے کیونکہ صحیحین میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  سے روایت ہے کہ جب ان سے سوال کیا گیا کہ رمضان میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی نماز کیسے

ہواکرتی تھی؟تو انہوں نے جواب دیا:

«مَا کَانَ يَزِيْدُ فِی رَمَضَانَ وَلَا غَيْرِهِ عَلٰی اِحْدٰی عَشْرَةَ رَکْعَةً» (صحيح البخاري، التهجد، باب قيام النبی بالليل، ح:۱۱۴۷ وصحيح، مسلم صلاة المسافرين، باب صلاة الليل… ح: ۷۳۸)

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  رمضان وغیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ نماز نہیں پڑھتے تھے۔‘‘

اگر کوئی تیرہ رکعت پڑھ لے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں کیونکہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے:

«کَانَتْ صَلَاةُ النَّبِیِّ ثَلَاثَ عَشْرَةَ رَکْعَةً» (صحيح البخاري، التهجد، باب کيف صلاة النبی… ح: ۱۱۳۸ وصحيح مسلم، صلاة المسافرين، باب صلاة النبی ودعائه… ح: ۷۶۴)

’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی نماز تیرہ رکعت تھی۔‘‘

یعنی نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی رات کی نماز کی رکعات کی تعداد تیرہ تھی۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ  سے بھی نماز تراویح کی تعداد گیارہ ہی ثابت ہے جیسا کہ موطأمیں اس سند کے ساتھ ثابت ہے، جو تمام سندوں میں سب سے زیادہ صحیح سند ہے۔ اگر اس سے زیادہ رکعات بھی پڑھ لی جائیں تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  سے جب رات کی نماز کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ وہ دو دو رکعت ہے۔ (صحیح البخاري، الوتر، باب ماجاء فی الوتر، حدیث: ۹۹۰)

اور پھر آپ نے تعداد کی کوئی حد مقرر نہ فرمائی۔ سلف سے اس بارے میں مختلف معمولات ثابت ہیں کیونکہ اس مسئلہ میں کافی گنجائش ہے، البتہ افضل یہ ہے کہ اس تعداد کو اختیار کیا جائے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم  سے ثابت ہے اور وہ ہے گیارہ یا تیرہ۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  یا خلفائے راشدین میں کسی سے یہ ثابت نہیں کہ ان کا تئیس رکعات پڑھنے کا معمول بلکہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ  سے گیارہ رکعات ہی ثابت ہیں۔ انہوں نے حضرت ابی بن کعب اور حضرت تمیم الداری رضی اللہ عنہ  کو حکم دیا تھا کہ وہ لوگوں کو گیارہ رکعات پڑھایا کریں۔ (الموطا الامام مالک، الصلاة، باب ماجاء فی قیام رمضان، حدیث: ۲۸۰)

اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ  کے شایان شان بھی یہی بات ہے کہ ان کا عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت کے مطابق ہو۔

ہمیں اس بارے میں نہیں معلوم کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  نے ۲۳/ رکعات سے زیادہ پڑھی ہوں بلکہ ظاہر اس کے خلاف معلوم ہوتا ہے علاوہ أزیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  کی اس روایت کو اس سے قبل بیان کیا جا چکا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  رمضان وغیر رمضان میں گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھا کرتے تھے اور بلا شبہ! حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  کا اجماع بھی حجت ہے کیونکہ اس میں وہ خلفائے راشدین بھی ہیں جن کے اتباع کا ہمیں حکم دیا گیا ہے اور پھر وہ اس امت کے خیرالقرون بھی گردانے جاتے ہیں۔

یاد رہے کہ نماز تراویح کی رکعات میں اجتہاد کی گنجائش ہے، لہٰذا اس مسئلہ کو امت کے انتشار وخلفشار کا سبب نہیں ہونا چاہیے، خصوصاً جب سلف سے اس کے بارے میں مختلف معمولات منقول ہیں اور ایسی کوئی دلیل نہیں جو اس مسئلہ میں اجتہاد سے مانع ہو۔ کسی اہل علم نے اس کے اجتہاد کی مخالفت کرنے والے سے کیا خوب کہا کہ آپ نے میری مخالفت کر کے درحقیقت میری تائید کی ہے کیونکہ ہم دونوں کی رائے یہ ہے کہ اجتہادی مسائل میں انسان جس بات کو حق سمجھے اس کے لیے اس کا اتباع کرنا واجب ہے۔

ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی پسند اور رضا کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے!

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ296

محدث فتویٰ

تبصرے