السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میری تین پھوپھیاں ہیں،ان میں سے بڑی ہمارے گھر میں' دوسری اپنے داماد کے ساتھ اور تیسری اپنے شوہر کے ساتھ رہتی ہے۔ان سب نے مل کر مجھ سے تعلق منقطع کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے کیونکہ یہ ہماری مشترکہ جائیداد کو میری اجازت کے بغیر فروخت کرنا چاہتی تھیں۔حالانکہ میں بھی اس جائیداد میں ان کے ساتھ شریک ہوں اورپھر ابھی تک ہم میں سے کسی کو یہ بھی معلوم نہیں کہ اس کا حصہ کتنا ہے'اس لیے میں نے خریدار کو نہ صرف اس جائیداد کے خریدنے سے منع کردیا 'بلکہ اس رقم کو بھی واپس کردیا جو اس نے انہیں ادا کی تھی۔میں اس جائیداد یا اس کی قیمت سے کوئی استفادہ نہیں کرنا چاہتا 'اس لیے میں نے جائیداد کو انہی کے پاس رہنے دیا اور خود سفر پر چلاگیا۔ میں چاہتا یہ تھا کہ اس زمین کی پیداوار پر گزارا کریں اور گھر پر رہیں مگر اس میں ازخود کوئی تصرف نہ کریں۔ان کے قطع تعلق کے بعد میں نے بھی اپنے آپ کو ان سے الگ کرلیاہے اور اب میں تن تنہا رہ رہاہوں'لیکن ڈرتا ہوں کہ قطع رحمی کی سزا کا مستحق قرار نہ پاؤں توسوال یہ ہے کہ اس مسئلہ کے بارے میں کیا حکم ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
آپ کا اپنی پھوپھیوں کو اپنے اس حق کے فروخت کرنے سے منع کیا جو انہیں باپ کی وراثت سے ملا ہے' ظلم و زیادتی ہے کیونکہ ان میں سے ہر ایک کو اپنے حصہ میں تصرف کا شرعاً حق حاصل ہے اور کسی کو (اس وقت تک) یہ حق حاصل نہیں کہ وہ انہیں تصرف سے منع کرے 'جب تک وہ شرعاً اس میں تصرف کی اہل ہوں۔آپ کے اور ان کے درمیان تعلق کے منقطع ہونے کا سبب آپ ہیں'لہذا اس عظیم گناہ سے اللہ تعالیٰ سے توبہ واستغفار کریں۔آپ ان سے معافی طلب کریں اورا ن سے ملاقات کریں کیونکہ اللہ بزرگ وبرتر نے صلہ رحمی کا حکم دیا ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذى تَساءَلونَ بِهِ وَالأَرحامَ ۚ...﴿١﴾... سورالنساء
’’اورا للہ سے جس کے نبام کو تم اپنی حاجت براری کا ذریعہ بناتے ہو ڈر اور (قطع مووت) ارحام سے بچو۔‘‘
اور فرمایا :
﴿وَءاتِ ذَا القُربىٰ حَقَّهُ ...﴿٢٦﴾... سورةالاسراء
’’اور رشتی دار کو اس کا حق ادا کرو۔‘‘
علماء کا اجماع ہے کہ صلہ رحمی واجب اور قطع رحمی حرام ہے،امام بخاری ومسلم ؒ نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
((من كان يومن بالله واليوم الاخر فليكرم ضيفه ‘ومن كان يومن بالله واليوم الاخر فليصل رحمه )) (صحيح البخاري ‘الادب ‘باب اكرام الضيف ___الخ ‘ ح; ٦١٣٧)
’’جو شخص اللہ تعالیٰ اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیے کہ وہ اپنے مہمان کی عزت کرے اور جو شخص اللہ تعالیٰ اورروز آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیے کہ صلہ رحمی کرے۔‘‘
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب