سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(322) بےنماز دوست سے معاملہ

  • 10679
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1113

سوال

(322) بےنماز دوست سے معاملہ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میرا ایک بہت ہی عزیز دوست ہے جو بہت اعلیٰ اخلاق کا مالک ہے لیکن اس میں ایک خرابی یہ ہے کہ وہ نماز نہیں پڑھتا۔اس دوست کے بلند اخلاق کی وجہ سے مجھے اس سے محبت ہے لیکن میں نہیں جانتا کہ اس سے دوستی رکھوں یا نہ رکھوں ؟سماحۃ الشیخ ! راہنمائی فرمائیں میں  اسے کس طرح قائل کروں کہ وہ نماز ادا کرنے لگ جائے؟ اور اگر وہ  ترک نماز ہی کو اپنا معمول  بنائے رکھے تو کیا میرے لیے لازم ہے کہ اس کی دوستی  ترک کردوں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نماز اسلام کا ستون اور شہادتین کے بعد عظیم ترین  رکن ہے۔ جس  نے اس کی حفاظت کی اس  نے اپنے دین کی حفاظت کی اور جس نے اسے  ضائع کردیا وہ باقی باتوں کو اور  زیادہ ضائع کرنے والا ہوگا۔ صحیح حدیث میں ہے ' نبی ﷺ نے فرمایا :

(( العهدالذي بيننا وبينهم الصلاة فمن تركها فقد كفر )) (جامعالترمذي‘الايمان‘باب ماجاء في ترك الصلاة‘ ح:٢٦٢١ ومسند احمد:٥/٣٤٦/٣٥٥)

’’وہعہد جو ہمارے اور ان لوگوں کے مابین ہے'وہ نماز ہے۔ جس نے اسے ترک کردیا س نے کفر کیا۔‘‘

حضرت جابر رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

((ان بين الرجل  وبين الشرك  والكفر  ترك الصلاة )) (صحيح مسلم‘ الايمان ‘باب اطلاق اسم الكفر علي من ترك الصلاة‘ ح :٨٢)

’’بے شک آدمی اور کفر کے درمیان فرق ترک نماز ہے۔‘‘

عبداللہ بن شقیق عقیلی جو کہ ثقہ تابعین  میں سے ہیں۔بیان فرماتے ہیں کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہ  اعمال میں سے نماز کے سوا اور کسی چیز  کے ترک کو  کفر نہیں سمجھتے تھے۔ یہی وجہ  ہے کہ اہل علم کی ایک بہت بڑی جماعت کے نزدیک ترک نماز کفر اکبر ہے خواہ وہ اس کے وجوب  کا انکار نہ بھی کرے'جیساکہ ان کے اور ان کے ہم معنی  دیگر احادیث سے ثابت ہوتا ہے اور بلا شک وشبہ یہی بات حق ہے۔ کچھ دیگر اہل علم  کا مذہب یہ ہے کہ ترک نماز کفر اصغر ہے' مگر  یہ بہت بڑا جرم ہے حتی کہ زنا اور چوری وغیرہ سے  بھی بڑا جرم۔ اگر کوئی شخص نماز کے واجب ہونےکا منکر ہو تو بالاجماع کافر ہے۔اے سائل! اس سے  آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہآپ کے لیے مذکورہ  بالا شخص کو نصیحت  کرنا اور اس کو ترک  نماز  سے ڈرانا واجب ہے۔اگر وہ توبہ  کرلے تو الحمد للہ! اور اگر توبہ نہ کرے  تو پھر آپ  کے لیےواکب ہے کہ اس سے اللہ تعالیٰ کے یے بغض رکھیں  اور براءت کا اظہار کردیں اور اس کی دوستی ترک  کردیں حتی کہ وہ اپنے  کفر سے  اللہ تعالیٰ کے سامنے توبہ کرلے'ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿قَد كانَت لَكُم أُسوَةٌ حَسَنَةٌ فى إِبر‌ٰ‌هيمَ وَالَّذينَ مَعَهُ إِذ قالوا لِقَومِهِم إِنّا بُرَ‌ء‌ٰؤُا۟ مِنكُم وَمِمّا تَعبُدونَ مِن دونِ اللَّهِ كَفَر‌نا بِكُم وَبَدا بَينَنا وَبَينَكُمُ العَد‌ٰوَةُ وَالبَغضاءُ أَبَدًا حَتّىٰ تُؤمِنوا بِاللَّهِ وَحدَهُ ...﴿٤﴾... سورةالممتحنة

’’تمہیں ابراہیم علیہ السلام اور ان کے رفقاء کی نیک  چال چلنی (ضروری ) ہے جب انہوں نے اپنی قوم  کے لوگوں سے کہا کہ ہم تم سے اور ان (بتوں)سے جن  کو تم اللہ کے سوا پوجتے ہو' بے تعلق  ہیں (اور ) تمہارے (معبودوں کے کبھی ) قائل نہیں (ہوسکتے) اور جب  تک تم اللہ واحد پر ایمان  نہ لاؤ ہم میں تم میں ہمیشہ کھلم کھلا  عداوت  اور دشمنی  رہے گی۔‘‘

ہر مسلمان  کے لیے واجب ہے کہ تمام کافروں کے ساتھ  وہ اسی قسم کا سلوک  کرے کواہ کفر ترک نماز کی صورت میں ہو یا انکار وجوب کی صورت میں یا دین اسلام کو گالی دینے  یا اس کا مذاق  اڑانے کی شکل میں یا کسی اور انداز میں ۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں آپ کو  اور تمام مسلمانوں کو  ہر اس چیز  سے بچائے جو اسے ناراض کرنے والی ہوں۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج4ص248

محدث فتویٰ

تبصرے