سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(302) واجب ہے کہ والدین سے خوب بھلائی کی جائے

  • 10659
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1605

سوال

(302) واجب ہے کہ والدین سے خوب بھلائی کی جائے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میری ایک سہیلی کا کہنا ہے کہ  اس کی والدہ  بہت جلد  غصے میں آجاتی ہے اور اسے اور اس کے بھائیوں کو بہت بد دعائیں دیتی ہے اور خاص طعر پر بیدار کرتے وقت تو بہت بددعائیں دیتی ہے اور پھر بسااوقات  قبولیت  دعا کے اوقات میں بھی  بددعائیں دیتی ہے'لیکن  یہ سہیلی  اپنی والدہ کے ساتھ نیکی  اور بھلائی کی کوشش کرتی ہے مگر  اپنی ماں کے سخت رویہ کی وجہ سے  کبھی کبھی اس کی نافرمانی بھی کر بیٹھتی ہے تو کیا اس صورت  میں یہ گناہ گار ہوگی 'حالانکہ نافرمانی کا سبب خود اس کی ماں ہی ہوتی ہےاور اگر  ماں بلاوجہ اپنے بچوں کو بددعا دے تو کیا وہ قبول ہوجاتی ہے؟ امید ہے  راہنمائی فرمائیں گے۔جزاكم الله خيراً


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اولاد کے لیے یہ واجب ہے'خواہ وہ  بیٹے ہوں یا بیٹیاں'اپنے  والدین کے ساتھ  نیکی و بھلائی کریں اور کوشش کریں  کہ وہ ناراض نہ ہوں اور ان کے لیے بددعا نہ کریں کیونکہ والدین کا حق  بہت عطیم ہے۔اللہ تعالیٰ نے والدین کے بارے میں اپنے بندوں کو بہت  وصیت فرمائی ہے ' جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَقَضىٰ رَ‌بُّكَ أَلّا تَعبُدوا إِلّا إِيّاهُ وَبِالو‌ٰلِدَينِ إِحسـٰنًا ۚ...﴿٢٣﴾... سورةالاسراء

’’اور  تمہارے  پروردگار نے یہ فیصلہ کیا ہے  کہ تم اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرتے رہو۔‘‘

اور فرمایا:

﴿وَوَصَّينَا الإِنسـٰنَ بِو‌ٰلِدَيهِ حَمَلَتهُ أُمُّهُ وَهنًا عَلىٰ وَهنٍ وَفِصـٰلُهُ فى عامَينِ أَنِ اشكُر‌ لى وَلِو‌ٰلِدَيكَ إِلَىَّ المَصيرُ‌ ﴿١٤﴾... سورةلقمان

’’اور ہم نے  انسان کو  جسے اس کی ماں تکلیف پر تکلیف  سہ کر پیٹ میں اٹھائے رکھتی ہے(پھر  اس کو دودھ پلاتی ہے) اور (آخر کار) دو برس میں اس کا دودھ  چھڑانا ہوتا ہے(نیز) اس کے ماں باپ کے بارے میں تاکید کی ہے کہ میرا بھی شکر ادا کرتا رہ اور اپنے ماں باپ کا بھی (کہ تمکو) میری ہی طرف لوٹ  کر آنا ہے۔‘‘

حدیث سے ثابت ہے کہ  نبی ﷺ  سے جب یہ سوال کیا گیا کہ کون سا عمل افضل ہے؟ توآپ نے فرمایا:

((الصلاة عليٰ وقتها‘قال: ثم اي؟ قال : ثم بر الوالدين‘قال : ثم اي ؟ قال :الجهاد في سبيل الله )) (صحيح البخاري ّالادب ‘باب البر  والصلة‘ ح :٥٩٧- وصحيح مسلم ‘الايمان ‘باب بيان كون  الايمان بالله  تعاليٰ افضل الاعمال‘ ح :٨٥)

’’وقت پر نماز پڑھنا ' عرض کیا پھر کون سا؟ آپ نے فرمایا: والدین سے نیکی اور بھلائی کرنا۔ عرض کیا ' پھر کون سا؟ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے راستہ میں جہاد کرنا۔‘‘

 والدین کے ساتھ نیکی اور بھلائی کے بارے میں بہت سی احادیث ہیں'لہذا  اولاد خود پر خواہ وہ بیٹے ہوں یا بیٹیاں' یہ واجب ہے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ نیکی اور بھلائی کریں'انہیں ناراض کرنے والے اسباب سے دور رہیں۔ نیکی کے کاموں  میں ان کی سمع وطارت کی بجا لائیں۔اولاد  کے لیے والدین  کی نافرمانی  جائز نہیں ہے  خواہ  والدین کے اخلاق برے ہی کیوں نہ ہو۔ والدین کے لیے  بھی یہ واجب ہے کہ اولاد کے ساتھ  نرمی کریں'ان سے احسن انداز میں معاملہ کریں اور انہیں نافرمانی پر مجبور نہ کریں'ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَتَعاوَنوا عَلَى البِرِّ‌ وَالتَّقوىٰ ۖ وَلا تَعاوَنوا عَلَى الإِثمِ وَالعُدو‌ٰنِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ شَديدُ العِقابِ ﴿٢﴾... سورةالمائدة

’’اور تم نیکی اور پرہیز گاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم  کی باتوں میں مدد نہ کیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو'اور کچھ شک نہیں کہ  اللہ  سخت عذاب  (سزا دینے) والا ہے۔‘‘

والدین کے لیے مشروع یہ ہے کہ وہ اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کے لیے  خصوصاً قبولیت  کے اوقات میں  ہدایت  ونیکی کی دعا کریں اور بددعا سے اجتناب کریں' کیونکہ والدین کی اولاد  کے بارے میں بددعا بہت خطرناک  ہوتی ہے'ہوسکتا ہے کہ وہ قبولیت کا وقت ہو اور بددعا قبول ہوجائے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج4ص235

محدث فتویٰ

تبصرے