السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں ایک نوجوان ہوں 'میرے والد میرے اور میرے بھائیوں کے اخراجات برداشت کرتے ہیں' مگر میرے والد کا سودی بینکوں سے لین دین ہے ۔کیا میرے لیے اپنے والد کے مال کو استعمال کرنا جائز ہے جب کہ میں ابھی طالب علم ہوں ؟ اور کیا اس مال سے شادی کرنا اور دینی کتب خریدنا جائز ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
پہلے تو یہ معلوم کریں کہ ان بینکوں کے ساتھ آپ کے والد کا لین دین کس قسم کاہے ۔اگر انہوں نے محض امانت کے طور پر اپنی رقوم بینکوں میں رکھی ہیں اور ان پر وہ سود نہیں لیتے تو بوقت ضرورت یہ جائز ہے اور اگر وہ ان کے ساتھ کاروبار میں شریک ہیں یا ان سے سود پر قرض وغیرہ لیتے ہیں تو یہ بالکل سود ہے۔ تو اس صورت میں اولاً تو آپ ان کو سمجھائیں کہ یہ لین دین صحیح نہیں ۔اس سودی معاملے کی بابت سمجھائیں (کہ یہ لین دین صحیح نہیں ہے ) اور ان کواس کے انجام بد سے ڈرائیں 'نیز (انہیں یہ بھی بتائیں کہ ) سود سے برکتیں ختم ہوجاتی ہیں۔اگر وہ رجوع کرلیں اور توبہ کرلیں تو ماضی میں جو ہوا سو ہوا اور اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے اور اگر وہ اصرار کریں'بات نہ مانیں یا یہ دعویٰ کریں کہ یہ سود نہیں ہے یا یہ کہیں کہ وہ کوئی اور کام نہیں کرسکتے یا اس طرح کے دیگر حیلے بہانے کریں تو پھر آپ کوشش کریں کہ ان کی غیر سودی کمائی کو اپنے استعمال میں لائیں'یا اگر ممکن ہوتو ان کی کمائی سےمکمل طو پر پرہیز اور اجتناب کریں اور اگر آپ ان کے ساتھ رہنے سہنے اور ان کے مال کو کھانے کے لیے مجبور وبے بس ہوں تو پھر کوئی حرج نہیں ' لیکن اپنے دل میں اسے ناپسند کریں اور اس سے بچنے کے لیے پوری پوری کوشش کریں۔اسی طرح اگر آپ اس مال سے شادی کرنے یا کتب خریدنے کے لیے مجبور و مضطر ہوں تو کوئی حرج نہیں کیونکہ ضرورت کے خاص احکام ہوتے ہیں۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب