السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک شخص کا یہ کہنا ہے کہ میرا والد ملازمت کرتا ہے اور وہ رشوت لیتا ہے۔ قرآن مجید کی آیات اور احادیث کو گالی دیتا اور پردے کو تعصب قراردیتا ہے۔وہ کبھی مسجد میں نماز پڑھ لیتا ہے اور کبھی کسی اور جگہ اور کبھی کئی نمازیں جمع کرکے پڑھتا ہے۔اس شخص کی والدہ نماز نہیں پڑھتی البتہ اس کی بہنیں نماز پڑھتی ہیں ۔اس شخص کا سوال یہ ہے کہ کیا ایسے لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہنا جائز ہے؟اس طرح کے والد کے مال کو کھانے کے بارے میں کیا حکم ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اولاً: آیات قرآن اور صحیح احادیث کو گالی دینا ایسا کفر ہے جو انسان کو دائرہ اسلام سے خارج کردیتا ہے'نیز جان بوجھ کر نماز ترک کرنا بھی کفر ہے اور رشوت لینا کبیرہ گناہ ہے'لہذا پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ اپنے والدین کو سمجھائیں کہ وہ نماز پنجگانہ کو بروقت ادا کریں'اپنے والد کو سمجھائیں کہ وہ اپنی زبان کو گالی دینے سے عموماً اور قرآن وحدیث کو گالی دینے سے خصوصاً قابو میں رکھیں اور رشوت لینا چھوڑدیں۔اگر آپ کے والدین آپ کی بات کو قبول کرلیں تو الحمد للہ! ورنہ اچھے طریقے کے ساتھ ان سے کنارہ کش ہوجائیں۔ان سے ایسا میل جول نہ رکھیں جس سے آپ کے دین کو نقصان پہنچے'انہیں ایذا نہ پہنچائیں بلکہ دنیوی امور میں دستور کے مطابق ان کا ساتھ دیں۔اپنی بہنوں کو بھی سمجھاتے رہیں تاکہ والدین کے ساتھ رہنے سہنے کی وجہ سے وہ کسی فتنہ سے دوچار نہ ہوں۔
ثانیاً: اگر کسب ھرام کے علاوہ آپ کے والد کی کمائی کا کوئی اور ذریعہ نہ ہوتو پھر ان کے مال کو نہ کھائیں اور اگر ان کے مال میں حرام حلال ملا جلا ہو تو پھر علماء کے صحیح قول کے مطابق اسے کھانا جائز ہے اور اگر آپ کے لیے اس سے بچنا ممکن ہوتو یہ آپ کے لیے زیادہ بہتر ہے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب