السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اللہ تعالیٰ نے ماں باپ پر کیوں ترجیح دی ہے کہ رسول اللہﷺ نے ماں کے تین اور باپ کا ایک حق قرادیا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی صحیح حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا:
من احق الناس بحسن صحابتي ؟ قال :امك قال :ثم من؟ قال : ثم امك قال : ثم من؟ قال :ثم امك قال: ثم من؟قال : ثم ابوك )) (صحيح البخاري الادب ‘باب من احق الناس بحسن الصحية‘ ح :٥٩٧١ وصحيح مسلم ‘البر وااصلة والادب ‘باب بر الوالدين وايهما احق به ‘ ح: ٢٥٤٧ والفظ له)
’’میرے حسن صحبت کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے ؟ آپ نے فرما یا: تیری ماں۔اس نے عرض کیا: پھر کون ؟ آپ نے فرمایا : تیری ماں۔اس نے عرض کیا: پھر کون ؟آپ نے فرمایا: تیری ماں۔اس نے عرض کیا:پھر کون ؟ آپ نے فرمایا : تیرا باپ ۔‘‘
ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا:
((امك ‘ثم امك ‘ثم امك ‘ثم ابوك ‘ ثم ادناك ادناك )) ( صحيح مسلم ‘البر والصلة باب بر الوالدين وايهما احق به ‘ ح:٢٥٤٨)
’’تیری ماں 'تیری ماں’’پھر تیری ماں‘‘ پھر تیرا باپ 'پھر جو شخص جس قدر زیادہ قریب ہے،وہ اسی قدر زیادہ مستحق ہے۔‘‘
اس حدیث سے معلوم ہواکہ ماں کا حق باپ سے بڑھ کر ہے کہ آپ نے ماں کے حق کو تین بار قراردیا اور اس کا سبب یہ ہے کہ ماں نے حمل 'وضع حمل ' دودھ پلانے 'دودھ چھڑانے اور پرورش وتربیت کے سلسلے میں بہت سی صعوبتوں اور مشقتوں کو برداشت کیا ہوتا ہے اور باپ نے جو نفقہ اور تعلیم وتربیت کے فرائض سرانجام دیے 'ان کی وجہ سے اس کا ایک حق مانا گیا۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب