سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(259) دعا کے بعد منہ پر ہاتھ پھیرنا

  • 10617
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1134

سوال

(259) دعا کے بعد منہ پر ہاتھ پھیرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں دو سوال پوچھنا چاہتا ہوں ۔ایک تو یہ کہ دعا کے بعد منہ پر ہاتھ پھیرنے کے بارے میں کیا حکم ہے اور دوسرا یہ کہ  عورت کے مرد سے مصافحہ کے بارے میں کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

منہ پر ہاتھ  پھیرنے کے بارے میں صحیح احادیث موجود نہیں ہیں،۔اس  سلسلہ میں جو احادیث موجود ہیں' وہ ضعف سے خالی نہیں ہیں لہذا زیادہ   راجح اور زیادہ  صحیح بات یہ ہے کہ دونوں  ہاتھوں کو منہ پر  نہ پھیرا  جائے۔ بعض اہل علم  نے ذکر  کیا ہے کہ اس میں  کوئی حرج نہیں کیونکہ اس سلسلے  میں اگرچہ  احادیث ضعیف ہیں تاہم  ان کے بعض  طرق سے دوسرے طرق کو  تقویت حاصل  ہو جاتی ہے'جس کی وجہ سے  وہ قوی ہوکر حسن لغیرہ  کے قبیل  میں سے ہوجاتی ہیں، جیساکہ حافظ ابن حجر  ؒ نے  اپنی کتاب "بلوغ المرام" کے آخری  باب میں ذکر فرمایا ہے۔ بہر حال  مقصود یہ ہے کہ منہ پر ہاتھ  پھیرنے  کے بارے میں صحیح احادیث نہیں ہیں،نبی ﷺ نے ایسا نہ نمازاستسقاء میں کای اور نہ  ان دیگر موقعوں پر جہاں آپ نے دعا میں ہاتھ  اٹھائے تھے مثلاً صفا اور مروہ کے پاس' عرفات میں' مزدلفہ میں اور  جمرات  کے پاس صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے یہ ذکر  نہیں کیا کہ آپ نے ان موقعوں پر  اپنے ہاتھوں کو منہ پر پھیرا ہو' تو اس سے معلوم ہوا کہ افضل یہ ہے کہ اسے ترک  کردیا جائے۔

 دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ کسی بھی مسلمان کے جائز نہیں ہے کہ کسی اجنبی عورت سے مصافحہ  کرے کواہ وہ مصافحہ  کے لیے خود اپنا ہاتھ  آگے کیوں نہ بڑھادے۔ ایسی صورت میں  اسے یہ بتادے  کہ اجنبی مردوں سے مصافحہ جائز نہیں ہے بلکہ مصافحہ صرف  محرم مردوں 'مثلاً بھائی اور چچا وغیرہ سے جائز ہے۔اجنبی مرد اور عورت کا آپس  میں مصافحہ جائز نہیں ہے' کیونکہ نبی ﷺ نے فرمایا:

((اني لا اصافح النساء ) (سنن ابن ماجه ّالجهاد ‘باب بيعة النساء‘ح :٢٨٧٤ وسنن النسائي‘البيعة‘ باب بيعة النساء‘ ح:٤١٨٦)

’’ میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتا۔‘‘

اسی طرح صحیح حدیث میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے:

((مامست يد رسول الله صلي الله عليه وسلم يد  امراة قطط ‘ غير انه بايعهن  بالكلام )) (صحيح البخاري‘الطلاق‘باب اذا سلمت  المشركة  ۔۔۔۔ الخ‘ ح :٥٢٨٨)

’’رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ نے کبھی بھی  کسی (غیر محرم)  عورت  کے ہاتھ کو نہیں چھوا تھا۔آپ ان سے  زبانی  گفتگو کے ساتھ  بیعت لے لیا کرتے تھے۔‘‘

اور ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿لَقَد كانَ لَكُم فى رَ‌سولِ اللَّهِ أُسوَةٌ حَسَنَةٌ...﴿٢١﴾... سورةالاحزاب

’’یقیناً تمہارے لیے  رسول اللہ (ﷺ کی ذات) میں بہترین نمونہ ہے۔‘‘

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج4ص204

محدث فتویٰ

تبصرے