السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
سترے کے بارے میں کیا حکم ہے اور اس کی مقدار کتنی ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نماز میں سترہ سنت موکدہ ہے، البتہ امام کے سترہ پر اکتفا کی وجہ سے مقتدی کے لیے سترہ اختیار کرنا مسنون نہیں ہے۔ اس کی مقدار کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا:
«مِثْلَ مُؤْخِرَةِ الرَّحْلِ» (صحيح مسلم، الصلاة، باب سترة المصلی… ح:۵۹۹)
’’کجاوے کے پچھلے حصے کی طرح ہو۔‘‘
لیکن یہ اس کی زیادہ سے زیادہ مقدار ہے جب کہ اس سے کم تر مقدار بھی جائز ہے کیونکہ دوسری حدیث میں آیا ہے:
«اِذَا صَلَّی اَحَدُکُمْ فَلْيَسْتَتِرْ لِصَلَاتِهِ وَلَوْ بِسَهْمٍ»( مسند احمد، ح: ۴۰۴/۳ وصحيح ابن خزيمة، سترة المصلی، ح: ۸۱۱)
’’جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو سترہ اختیار کرے، خواہ وہ تیر کے بقدر ہو۔‘‘
ایک اور حدیث میں ہے جسے امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے سندحسن کے ساتھ روایت کیا ہے:
«أن منْ لَمْ يَجِدْ فَلْيَخُطَّ خَطًّا» (سنن ابي داؤد، الصلاة، باب الخط اذا لم يجد عصا، ح: ۶۸۹ وسنن ابن ماجه، اقامة الصلوات، باب ما يستر المصلی، ح: ۹۴۳ واللفظ له وصحيح ابن خزيمة، سترة المصلی: ۲/ ۱۲، ۸۱۱)
’’اگر اسے کوئی چیز نہ ملے تو کم أزکم لکیر ہی کھینچ لے۔‘‘
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ’’بلوغ المرام‘‘ میں لکھا ہے کہ جس کسینے اس حدیث کو مضطرب قرار دیا ہے، اس کی بات درست نہیں ہے کیونکہ اس حدیث میں کوئی ایسی علت نہیں جس کی وجہ سے اسے رد کر دیا جائے، لہٰذا ہم یہ کہتے ہیں کہ سترہ کی کم سے کم مقدار لکیر اور زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ وہ کجاوے کے پچھلے حصے کے برابر ہو۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب