سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

سیدنا عبد اللہ بن مسعود کا معوذتین کو قرآن ماننے سے انکار کرنا۔؟

  • 10605
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 3562

سوال

سیدنا عبد اللہ بن مسعود کا معوذتین کو قرآن ماننے سے انکار کرنا۔؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اکثر شیعہ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ سیدنا عبد اللہ بن مسعود معوذتین کو قرآن سے کھرچ دیتے تھے۔ان روایات کی کیا حقیقت ہے، برائے مہربانی جلد جواب سے آگاہ کریں۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے متعدد روایتوں میں یہ بات منقول ہے کہ وہ اِن دونوں سورتوں کو قرآن کی سورتیں نہیں مانتے تھے اور اپنے مُصحف سے اُنہوں نے اِن کو ساقط کردیا تھا۔ امام احمد، بزّار، طَبرَانی، ابن مَردویہ، ابو یَعلی، عبد اللہ بن احمد بن حنبل، حُمَیدی، ابو نُعیم، ابن حبان، وغیرہ محدثین نے مختلف سندوں سے اور اکثرو بیشتر صحیح سندوں سے یہ بات حضرت ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ سے نقل کی ہے۔ اِن روایات میں نہ صرف یہ کہا گیا ہے کہ وہ اِن سورتوں کو مصحف سے ساقط کردیتے تھے، بلکہ یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ وہ کہتے تھے ’’ قرآن کے ساتھ وہ چیزیں نہ ملاؤ جو قرآن کا جُز نہیں ہیں۔ یہ دونوں قرآن میں شامل نہیں ہیں۔ یہ تو ایک حکم تھا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا گیا تھا کہ آپ اِن الفاظ میں خدا کی پناہ مانگیں۔‘‘ بعض روا یات میں اِس پر یہ اضافہ بھی ہے کہ وہ اِن سورتوں کو نماز میں نہیں پڑھتے تھے۔

اِن روایات کی بنا پر مخالفین اِسلام کو قرآن کے بارے میں یہ شبہات اُبھارنے کا موقع مل گیا کہ معاذ اللہ یہ کتاب تحریف سے محفوظ نہیں ہے بلکہ اِ س میں جب دو سورتیں ابن مسعود رضی اللہ عنہ جیسے صحابی کے بیان کے مطابق اِلحاقی ہیں تو نہ معلوم اور کیا کیا حذف و ا ضافے اِس کے اندر ہوئے ہوں گے۔ اِس طعن سے پیچھا چھڑانے کے لیے قاضی ابوبکر الباقِلانی اور قاضی عِیاض وغیرہ نے یہ تاویل کی کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ مُعوذتین کی قرآنیت کے منکر نہ تھے بلکہ صرف ان کو مُصحَف میں درج کرنے سے انکار کرتےتھے، کیونکہ اُن کے نزدیک مُصحف میں صرف وہی چیز درج کی جانی چاہیے تھی جس کے ثبت کرنے کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی ہو، اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ تک یہ اطلاع نہ پہنچی تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اجازت دی ہے۔ لیکن یہ تاویل درست نہیں ہے، کیونکہ صحیح سندوں کے ساتھ یہ بات ثابت ہے کہ ابن مسعود )رض( نے اِن کے قرآنی سورتیں ہونے کا انکار کیا ہے۔ کچھ دوسرے بزرگوں، مثلاً امام نَووی، امام ابن حَزُم اور امام فخر الدین رازی نے سرے سے اِ س بات ہی کو جھوٹ اور باطل قرار دیا ہے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے ایسی کوئی بات نہیں کہی ہے۔ مگر مستند تاریخی حقائق کو بلا سند رد کردینا کوئی علمی طریقہ نہیں ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ ابن مسعود )رض( کی اِن روایات سے قرآن پر جو طعن وارد ہوتا ہے اس کا صحیح رد کیا ہے؟ اِس سوال کے کئی جواب ہیں جن کو ہم سلسلہ وار درج کرتے ہیں:

(1) حافظ بزّار نے اپنی مُسند میں ابن مسعود (رض) کی یہ روایات نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ اپنی اِس رائے میں وہ بالکل منفرد ہیں۔ صحابہ میں سی کسی نے بھی اُن کے اِس قول کی تائید نہیں کی ہے۔

(2) تمام صحابہ کے اتفاق سے خلیفہ ثالث سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے قرآن مجید کے جو نسخے مرتّب کروائے تھے اور خلافتِ اسلامیہ کی طرف سے جن کو دنیائے اسلام کے مراکز میں سرکاری طور پر بھیجا تھا اُن میں یہ دونوں سورتیں درج تھیں۔

(3) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک سے آج تک تمام دنیائے اسلام کا جس مُصحَف پر اِجماع ہے اُ س میں یہ دونوں سورتیں درج ہیں۔ تنہا عبد اللہ بن مسعود (رض) کی رائے، اُن کی جلالت قدر کے باوجود، اِس عظیم اِجماع کے مقابلے میں کوئی وزن نہیں رکھتی۔

(4) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہایت صحیح و معتبر احادیث کے مطابق یہ ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سورتوں کو نماز میں خود پڑھا ہے، دوسروں کو پڑھنے کی ہدایت فرمائی ہے اور قرآن کی سورتوں کی حیثیت ہی سے لوگوں کو اِن کی تعلیم دی ہے۔ مثال کے طور پر ذیل کی احادیث ملاحظہ ہوں:

مسلم، احمد، ترمِذی، اور نَسائی کے حوالہ سے حضرت عُقُبہ رضی اللہ عنہ بن عامِر کی یہ روایت ہم اوپر نقل کرچکے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ فَلَق اور سورہ الناس کے متعلق اُن سے یہ فرمایا کہ آج رات یہ آیات مجھ پر نازل ہوئی ہیں۔ نَسائی کی ایک روایت عُقبہ (رض) بن عامرسے یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دونوں سورتیں صبح کی نماز میں پڑھیں۔ ابن حِبّان نے اِنہی حضرت عُقُبہ (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن سے فرمایا ’’ اگر ممکن ہو تو تمہاری نمازوں سے اِن دونوں سورتوں کی قراءت چھوٹنے نہ پائے۔‘‘ سعید بن منصور نے حضرت مُعاذ (رض) بن جبَل سے روایت نقل کی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز میں یہ دونوں سورتیں پڑھیں۔ امام احمد نے اپنی مُسند میں صحیح سند کے ساتھ ایک اور صحابی کی یہ روایت لائے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن سے فرمایا جب تم نماز پڑھو تو اس میں یہ دونوں سورتیں پڑھا کرو۔ مُسند احمد، ابو داؤد اور نَسائی میں عُقُبہ (رض) بن عامر کی یہ روایت آئی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن سے فرمایا ’’ کیا میں دو ایسی سورتیں تمہیں نہ سکھاؤں جو اُن بہتریں سورتوں میں سے ہیں جنہیں لوگ پڑھتے ہیں؟‘‘ انہوں نے عرض کیا ضرور یارسول اللہ۔ اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو یہی معوّذتین پڑھائیں۔ پھر نماز کھڑی ہوئی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی دو سورتیں اس میں بھی پڑھیں۔ اور نماز کے بعد پلٹ کرجب آپ اُن کے پاس سے گزرے تو فرمایا ’’ اے عُقَب، کسیا پایا تم نے؟ ‘‘ اور اس کے بعد اُن کو ہدایت فرمائی کہ جب تم سونے لگو اور جب سوکر اٹھو تو اِن سورتوں کو پڑھا کرو۔ مُسند احمد، ابو داؤد، تِرُمِذِی اور نَسائی میں عُقُبہ (رض) بن عامر کی ایک روایت یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ہر نماز کے مُعَوّذات (یعنی قل ہو اللہ احد اور معوّذتین) پڑھنے کی تلقین کی۔ نَسائی، ابن مَرُدُوُیہ اور حاکم نے عُقُبہ (رض) بن عامر کی یہ روایت بھی نقل کی ہے کہ ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سواری پر چلے جارہے تھے اور آپ کی قدمِ مبارک پر ہاتھ رکھے ہوئے ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔ میں نے عرض کیا مجھے سورہ ہود یا سورہ یوسف سکھا دیجئے۔فرمایا ’’ اللہ کے نزدیک بندے کے لیے قُل اَعُوذُ بِرَبِّ الفلَقِ سے زیادہ نافع کوئی چیز نہیں ہے۔ ‘‘ عبد اللہ بن عابِس الجُہنِی کی روایت نَسائی، بَہیقِی، بَغَوی اور ابن سعد نے نقل کی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا ’’ ابن عابِس، کیا میں تمہیں نہ بتاؤں کہ پناہ مانگنے والوں نے جتنی چیزوں کے ذرعہ سے اللہ کی پناہ مانگی ہے ان میں سب سے افضل کونسی چیزیں ہیں؟ ‘‘ میں نے عرض کیا ضرور یا رسُول اللہ ۔ فرمایا ’’ قُل اَعُوذ بِرَبِّ الفَلَقِ اور قُل اَعُوذ بِرَبِّ النَّاسِ یہ دونوں سورتیں۔ ‘‘ ابن مَردُویہ نے حضرت ام سَلمہ کی روایت نقل کی ہے کہ اللہ کو جوسورتیں سب سے زیادہ پسند ہیں وہ قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس ہیں۔

(5)اور پھر روایت حفص جو اکثر بلاد اسلامیہ میں رائج ہے اس میں یہ دونوں سورتیں ہی لکھی ہوئی ہیں۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتوی کمیٹی

محدث فتوی


تبصرے