سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

جمعہ کے دن غسل سنت مؤکدہ ہے

  • 10583
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 937

سوال

جمعہ کے دن غسل سنت مؤکدہ ہے
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا جمعہ کے دن غسل وا جب ہے یا مستحب ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جمعہ کے دن غسل کر ناسنت مؤکدہ ہے جیسا کہ احا دیث صحیح سے ثا بت ہے مثلاً نبی  صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ :

(غسل يوم الجمعة واجب علي كل محتلم وان يستاك وينطيب)

(صحیح بخا ری )

"جمعہ کے دن غسل کر نا ہر با لغ پر وا جب ہے نیز یہ کہ وہ مسو اک کرے اور خو شبو استعمال کر ے ۔ "اسی طرح آپ نے فر ما یا :

(من اغتسل ثم اتي الجمعة فصلي ماقدر له ثم انصت حتي يفرغ لامام من خطبته ثم يصلي معه غفر له ما بينه وبين الجمعة الاخري وفضل ثلاثة ايام)(صحیح مسلم )

"جس نے غسل کیا اور پھر جمعہ پڑ ھنے آیا تو فیق کے مطا بق نماز پڑ ھی پھر خا مو ش رہا حتی کہ امام خطبہ سے فا ر غ ہو جا ئے پھر امام کے سا تھ نماز پرھے تو اس کے لئے (اس ) جمعہ سے لے کر (آنے وا لے ) جمعہ تک بلکہ تین دن مز ید تک گنا ہ معا ف کر دیئے جا تے ہیں ۔"مسلم ہی کی ایک اور روا یت میں الفا ظ یہ ہیں کہ :

(من توضا فاحسن الوضوء ثم اتي الجمعة فاستمع وانصت غفر له ما بينه وبين الجمعة وزيادة ثلاثة ايام ومن مس الحصي فقد لغا)(صحیح مسلم )

"جس نے وضو ء کیا اور خو ب اچھی طرح وضو ء کیا پھر جمعہ پڑ ھنے آیا اور خا مو ش ہو کر خطبہ سنا تو اس کے لئے جمعہ سے جمعہ تک اور تین دن زیا دہ کے گنا ہ معا ف کر دیئے جا تے ہیں اور جس نے ( جمعہ کے دوران) کنکری کو بھی چھو ا اس نے لغو کا کیا ۔ (اس باب میں اور بھی بہت سی احادیث ہیں ) حدیث میں جو یہ الفا ظ ہیں کہ :

واجب علي كل محتلم

"جمعہ کے دن کا غسل ہر با لغ پر وا جب ہے ’’

تو اس کے معنی اکثر اہل علم کے نز دیک یہ ہیں کہ ا س کی بہت تا کید ہے ایسے ہی ہے جیسے عرب کہتے ہیں کہ : "وعدہ قرض ہے اور آپ کا حق مجھ پر وا جب ہے ۔" اور اس کی دلیل یہ بھی ہے کہ بعض احا دیث سے معلو م ہو تا ہے کہ وضو ء بھی کا فی ہے اسی طرح جمعہ کے دن خو شبو لگا نا مسوا ک کر نا اچھے کپڑ ے پہننا اور جمعہ کےلئے جلدی جا نا ان امو ر میں سے ہے جن کی تر غیب دی گئی ہے لیکن ان میں سے کو ئی چیز بھی وا جب نہیں ہے

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج1ص538

محدث فتویٰ

تبصرے