میں ریا ض کے مضا فا ت میں ایک مسجد میں امام ہو ں ۔میر ی مشکل یہ ہے کہ میں تجو ید و قر ات میں کمزور ہو ں اور پڑھنے میں غلطیاں بہت کر تا ہو ں مجھے قر آن مجید کے تین پا ر ے اور بعض سورتوں کی بعض آ یا ت یا د ہیں لیکن میں اس ذ مہ دا ری کے با ر ے میں بہت ڈر تا ہو ں لہذا برا ہ کر م رہنما ئی فر ما یئے کیا میں امامت کا سلسلہ جا ر ی رکھو ں یا مستعفی ہو جا ؤ ں ؟
ہما ر ی مسجد کے بعض لو گ نما ز فجر کے با جما عت ادا کر نے میں کو تا ہی کر تے ہیں میں نے انہیں بار بار سمجھا یا ہے لیکن بے سو د تو کیا میں ان کی محکمہ میں شکایت کر دو ں یا نصیحت کر تا رہو ں ؟
کیا یہ جا ئز ہے کہ قرآ ن مجید کی ایک ہی سو ر ۃ کو ہفتہ میں دوبار یا تین یا اس سے بھی زیا دہ دفعہ پڑھا جا ئے ؟ برا ہ کر م رہنما ئی فر مائیں (جزا کم اللہ خیر ا )
آپ کو جس قدر قرآن مجید یا د ہے اس کے حفظ و تجو ید میں خوب محنت کر یں اور اگر آپ کی نیت نیک ہو ئی اور آپ نے خو ب مقدور بھر کو شش کی تو پھر آپ کو اللہ تعا لیٰ کی طرف سے خیرو بر کت کی بشارت ہو ! کیو نکہ ارشا د با ری تعا لیٰ ہے :
"اور جو اللہ سے ڈر ے گا اللہ اس کے کا م میں سہو لت پیدا کر دے گا"
اور نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشا د ہے ۔
" قرآن مجید کے ما ہر کو معزز اور نیکو کا ر فر شتو ں کا سا تھ نصیب ہو گا اور جو قرآن پڑ ھتا اور اس میں اٹکتا ہے اور قرآن مجید پڑھنا اس کے لئے بہت مشکل ہے تو اسے دو گنا ہ ثوا ب ملے گا ۔ہمآپ کو یہ مشو رہ نہیں دیں گے کہ استعفیٰ دے دو بلکہ یہ مشو رہ دیں گے کہ مسلسل محنت اور صبر و کو شش سے کا م لو حتی کہ کتا ب اللہ کے مکمل حفظ و تجو ید میں کامیا ب ہو جا ئے یا قر آن مجید کا جتنا حصہ اللہ تعا لیٰ حفظ کر نے کی تو فیق عطا فرماتے اتنا حفظ کر لو ۔ اللہ تعا لیٰ آپ کو تو فیق بخشے اور آسا نی فرمائے ۔
جو ا ب ۔ ہم آ پ کو یہ مشو رہ دیں گے ان لو گو ں کو مسلسل سمجھا تے رہو اور جما عت کے خا ص خا ص احبا ب کو سا تھ لے کر ان کے پا س بھی جاؤ اور بتا ؤ کہ نماز با جما عت ادا نہ کر نے کے کس قدر نقصا نا ت ہیں اور سب سے بڑ ی با ت یہ ہے کہ یہ نفا ق کی نشا نی ہے ہو سکتا ہے کہ آ پ لو گو ں کی با ت کو قبو ل کر کے یہ لو گ را ہ را ست پر آجا ئیں صحیح حدیث سے ثا بت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا :
منا فقو ں پر سب سے بھا ری نما ز عشا ء اور صبح کی نماز ہے اور اگر انہیں معلو م ہو کہ ان نماز و ں مین کس قدر اجر و ثو ا ب ہے تو وہ ضر و آئیں گے خو اہ گھنٹوں کے بل چل کر ،اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشا د ہے کہ :
"جو شخص اذا ن سے اور مسجد میں نماز کے لئے نہ آئے تو اس کی نماز نہیں الا یہ کہ کو ئی ( معقو ل شر عی ) عذر ہو ۔ ’’
ایک نا بینا آدمی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجا ز ت طلب کی کہ اس کے پا س کو ئی معا ون نہیں جو اسے مسجد میں لے جا سکے تو کیا اس کے لئے گھر میں نما ز پڑھنے کی اجازت ہے ؟ تو آپ نے فر ما یا :
کیا تم اذا ن کی آواز سنتے ہو ؟ اس نے جو ا ب دیا ہا ں تو آپ نے فر ما یا "پھر اس کی آوا ز پر لبیک کہو ۔"
ایک دوسری حدیث میں الفا ظ یہ ہیں کہ :
میں تمہا رے لئے کو ئی اجا ز ت نہیں پا تا ۔ "
حضرت عبد اللہ بن مسعو د رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو کبا ر صحا بہ کرا م رضوان اللہ عنہم اجمعین میں شما ر ہو تے ہیں فر ما تے ہیں :
(سنن ابی داؤد )
"ہم نے دیکھا ہے کہ نما ز با جما عت سے صرف وہی شخص پیچھے رہتا تھا جو واضح طو ر پر منا فق ہو تا تھا ۔"
ہر مسلما ن کے لئے یہ وا جب ہے کہ وہ نماز با جما عت کی حفا ظت کر ے اور با جما عت سے پیچھے رہنے میں احتیاط کر ے ائمہ مسا جد پر بھی وا جب ہے کہ نما ز با جما عت سے پیچھے رہنے والو ں کو سمجھا تے رہیں انہیں نصیحت کر تے رہیں اور اللہ کے غضب و عقا ب ڈراتے رہیں اور اگر وہ وعظ و نصیحت سے بھی با ز نہ آئیں تو وا جب ہے کہ نماز با جما عت سے پیچھے رہنے وا لو ں کے محکمہ کے اس دفتر پیش کیا جا ئے جو محلہ کی مسجد میں ہے تا کہ محکمہ ان کے با ر ے میں قا نو نی کا ر وا ئی کر سکے ہم اللہ تعا لیٰ سے سوا ل کر تے ہیں کہ وہ مسلما نوں کو نیکی و تقو ی کے اختیا ر کر نے اور اللہ تعا لیٰ کے غضب و عقا ب سے بچنے کی توفیق عطا فر ما ئے ۔
جو ا ب ۔ اس با ت کی اجا ز ت ہے کہ ایک سو رۃ کو ہفتہ میں یا ایک ہی دن میں با ر با ر پڑ ھ لیا جا ئے اس کے لئے کو ئی پا بندی نہیں بلکہ یہ بھی جا ئز ہے کہ ایک ہی نما ز میں سو ر ۃ فا تحہ کے بعد دونو ں رکعتوں میں ایک ہی سو ر ۃ کو پڑ ھ لیا جا ئے جیسا کہ صحیح حدیث سے ثا بت ہے کہ :
( سنن ابی دا ؤد )
"نبی کر یم سے پہلی اور دو سر ی دو نو ں رکعتو ں میں سو ر ۃ ((اذا ذلزلت)) کی تلا وت فر ما ئی ۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب