سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

عما مہ (پگڑی ) کے بغیر اما مت

  • 10515
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1003

سوال

عما مہ (پگڑی ) کے بغیر اما مت
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہما ر ے علا قے میں بعض لو گ اس امام کے پیچھے نما ز جا ئز نہیں سمجھتے جس نے عمامہ نہ پہنا ہو بلکہ  عما مہ کے بغیر اما مت کو وہ سنت کے خلاف  سمجھتے ہیں اسی لئے بعض لو گ اپنی مسجدوں کے محرا بوں میں عماموں کو تیا ر رکھتے ہیں تا کہ بوقت اما مت امام عمامہ کو اپنے سر پر رکھ لے تو اس مسئلہ میں شر عی حکم کیا ہے ؟ کیا شرعی نقطہ نگا ہ سے اس میں کو ئی فرق ہے کہ بوقت امامت سر پر عمامہ ہو یا ٹو پی ؟ نیز بوقت امامت لوگ مختلف قسم کی ٹو پیا ں جو استعما ل کر تے ہیں تو ان کے بارے میں کیا حکم ہے ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جعفر بن عمر و بن حر یث نے اپنے  با پ سے روا یت کیا کہ انہوں نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر دیکھا  ہے کہ :

(رايت رسول الله صلي الله عليه وسلم علي المنبر وعليه عمامة سوداء قد ارخي طرفها بين كتفيه )(صحیح مسلم )

"آپ نے سیا ہ عمامہ پہنا ہو ا تھا اور اس کے کنا رے آپ نے اپنے دونوں کندھوں کے درمیا ن لٹکا رکھا تھا ۔ امام تر ندی نے نا فع از ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سند سے ذکر کیا ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  جب عمامہ با ند ھتے تو عمامہ کو اپنے دونو ں کند ھوں کے در میا ن لٹکا لیتے تھے ان روا یات کے پیش نظر بہت سے علما ء نے امام ہو یا مقتدی سب کے لئے عمامہ پہننا اور اس کے کچھ حصہ کو لٹکا نا مستحب قرار دیا ہے حا فظہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ  نے ذکر فر ما یا ہے کہ نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم  کبھی ٹو پی پر عمامہ با ند ھتے اور  کبھی ٹو پی کے بغیر اور کبھی آپ ٹو پی ہی پہن لیتے اور عمامہ استعما ل نہ فر ما تے اس مسئلہ میں گنجا ئش ہے کیو نکہ یہ ثا بت نہیں نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم  نے عمامہ  استعما ل کر نے کا حکم دیا ہو یا آپ نے خود اس کی ہمیشہ پا بند ی فرمائی ہو اور اس پر بھی تمام امت کا اجماع ہے کہ عما مہ نماز یا جما عت کی صحت کے لئے شر ط بھی نہیں ہے تو اس کو لا ز م قرا ر دینا بھی دین میں تکلف اور تشد د ہے اور جو شخص دین میں تکلف اور تشد د کو اختیا ر کر ے گا دین اس پر غا لب آجا ئے گا ۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج1ص502

محدث فتویٰ

تبصرے