سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

نماز ترک کرنے اور دین کا مذاق اڑانے والے کی صحبت

  • 10497
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1577

سوال

نماز ترک کرنے اور دین کا مذاق اڑانے والے کی صحبت
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا مسلمان آدمی کے لئے ایسے شخص کی صحبت اختیار کرنا جائز ہے جواکثر اوقات نماز نہیں پڑھتا؟

2۔میں بہت سارے نوجوانوں کو دیکھتا ہوں کہ وہ جب کسی ایسے نوجوان کو دیکھتے ہیں جونماز اور دین کی حفاظت کرتاہو تو یہ اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔اور بعض ایسے نوجوانوں کو بھی دیکھتا ہوں۔۔۔اللہ تعالیٰ انھیں ہدایت عطا فرمائے۔۔۔جو دین کے بارے میں بہت لاپروائی کے ساتھ نامناسب انداز میں بات کرتے ہیں ان کے بارے میں کیا حکم ہے؟کیا ان ک ساتھ صحبت ورفاقت جائز ہے؟اور ایسے اوقات میں خوش طبعی جائز ہے جو نماز کے اوقات نہ ہوں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مسلمان کے لئے کسی ایسے شخص کی صحبت ورفاقت جائز نہیں جو بعض اوقات نماز کو ترک کردیتا ہو بلکہ واجب ہے۔کہ اسے نصیحت کی جائے۔اور اس کے اس بُرے عمل کا انکار کیا جائے۔ اگر وہ توبہ کرلے تو ٹھیک وگرنہ اسے چھوڑ دے ۔اور اسے اپنا دوست نہ بنائے۔بلکہ اللہ تعالیٰ کی خاطر اس سے بغض رکھے حتیٰ کہ وہ اپنے اس بُرے عمل سے تائب ہوجائے کیونکہ نماز کو چھوڑنا کفر اکبر ہے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ:

((العهد الذي بيننا وبينهم الصلاة ’فمن تركها فقد كفر))

‘‘ہمارے اوران (کفارومشرکین)کے درمیان عہد ،نماز ہے جو اسے ترک کردے وہ کافر ہے۔’’

اس حديث كو امام احمد اور اہل سنن نے صحیح سند کے ساتھ حضرت بریدہ بن حصیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا ہے اور امام مسلم نے صحیح میں حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کو بیان فرمایا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

((بين الرجل وبين الكفر والشرك ترك الصلوة )) (صحيح مسلم)

‘‘آدمی اورکفر وشرک کے درمیان فرق،ترک نماز سے ہے۔’’

ہر مسلمان کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے لئے محبت رکھے اور اللہ تعالیٰ ہی کے لئے بغض رکھے اللہ تعالیٰ ہی کی خاطرکسی سے دوستی رکھے اور اسی کی خاطردشمنی جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:

﴿قَد كانَت لَكُم أُسوَةٌ حَسَنَةٌ فى إِبر‌ٰ‌هيمَ وَالَّذينَ مَعَهُ إِذ قالوا لِقَومِهِم إِنّا بُرَ‌ء‌ٰؤُا۟ مِنكُم وَمِمّا تَعبُدونَ مِن دونِ اللَّهِ كَفَر‌نا بِكُم وَبَدا بَينَنا وَبَينَكُمُ العَد‌ٰوَةُ وَالبَغضاءُ أَبَدًا حَتّىٰ تُؤمِنوا بِاللَّهِ وَحدَهُ ...﴿٤﴾... سورة الممتحنة

‘‘(اے اہل ایمان)تمہارے لئے ابراہیم(علیہ السلام)اوران کے رفقاء(ساتھیوں)میں بہترین نمونہ ہے جب انہوں نے اپنی قوم کے لوگوں سے کہا کہ ہم تم سےاوران (بتوں)سے جن کوتم اللہ کے سواپوجتے ہو،بےتعلق ہیں(اور)تمہارے(معبودوں کے کبھی قائل نہیں ہوسکتے)اورجب تک تم اللہ وحدہ پر ایمان نہ لاوہمارےاورتمہارےدرمیان کھلم کھلاعداوت اوردشمنی رہے گی۔’’

اس طرح كے آدمی کے معاملے کو  حکمرانوں تک بھی پہنچانا چاہیے بشرط یہ کہ تمہارے ملک میں اسلامی شریعت کی حکمرانی ہو تاکہ اس سے توبہ کروائی جائے اگر توبہ کرلے تو ٹھیک ورنہ اسے قتل کردیا جائے۔کیونکہ جوشخص نماز چھوڑدے اور توبہ نہ کرے تو اس کی حد قتل ہے جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے:

﴿فَإِن تابوا وَأَقامُوا الصَّلو‌ٰةَ وَءاتَوُا الزَّكو‌ٰةَ فَخَلّوا سَبيلَهُم... ﴿٥﴾... سورة التوبة

‘‘پھر اگروہ توبہ کرلیں اورنمازپڑھنے اورزکوۃ دینے لگیں توان کی راہ چھوڑ دو۔’’

تواس سےمعلوم ہوا کہ جو نماز نہ پڑھے اس کی راہ نہ چھوڑی جائے ،نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

اني نهيت عن قتل المصلين(سنن ابی داؤد)

‘‘مجھے نمازیوں کے قتل سے منع کیاگیا ہے’’

تواس سےبھی معلوم ہوا کہ جو نماز نہ پڑھے اس کے قتل سے آپؐ کو منع نہیں کیا گیا ۔بلکہ اس کا قتل واجب ہے۔بشرط یہ کہ وہ توبہ کرلے۔ پھر ظاہر ہے کہ اس کی سزا کی صورت میں وہ اس عظیم جرم کے ارتکاب سے باز رہ سکتا ہےاللہ تعالیٰ سے دعاء ہے کہ وہ مسلمانوں کے حالات کی اصلاح فرمادے ہمیں اور ان سب کو دین پر ثابت قدم رکھے۔انہ سمیع قریب!

جواب۔نمبر 2۔اسلام یااسلام کی کسی بات کا مذاق اُڑانا کفر اکبر ہےارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿قُل أَبِاللَّهِ وَءايـٰتِهِ وَرَ‌سولِهِ كُنتُم تَستَهزِءونَ ﴿٦٥ لا تَعتَذِر‌وا قَد كَفَر‌تُم بَعدَ إيمـٰنِكُم...﴿٦٦﴾... سورة التوبة

‘‘کہوکیا تم اللہ اوراس کی آیتوں اوراس کے رسول سے ہنسی کرتے تھے ؟بہانے مت بناوتم ایمان لانے کے بعدکافرہوچکے ہو۔’’

جو شخص اہل دین اور نمازیوں کا ان کے دین اور اس کی حفاظت کرنے کی وجہ سے مذاق اڑائے تو اس کے بارے میں یہ سمجھا جائے گا کہ وہ دین کا مذاق اڑارہا ہے۔ لہذا اس شخص کی صحبت وہم نشینی جائز نہیں بلکہ اس کی ان خرافات کا انکار کرنا اور ان سے کنارہ کشی اختیار کرنا واجب ہے نیز واجب ہے۔ کہ اسے سچی توبہ کی ترغیب دی جائے اگر وہ توبہ کرے تو الحمدللہ ورنہ اس کے ان بُرے اعمال کے بارے میں عادل گواہوں کی شہادت کے بعد حکمرانوں کو شکایت کی جائے گی۔ تاکہ شرعی عدالت کی طرف سے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اس کا فیصلہ کیاجائے۔ بہرحال یہ بہت اہم مسائل ہیں۔ ہر طالب علم اور مسلمان کے لئے جو اپنے دین کو جانتا ہو ضروری ہے کہ وہ اس سے اجتناب کرے اور دوسروں کو بھی دین کا مذاق اڑانے کی اجازت نہ دے تاکہ عقیدہ خراب نہ ہواور وہ سزا بھی نہ ملے جو حق اور اہل حق کا مذاق اڑانے کی صورت میں ملتی ہے۔

ہم اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتے ہیں کہ وہ ہم سب مسلمانوں کو اس کام سے محفوظ رکھے۔ جو اس کی شریعت کے مخالف ہو اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ان کے کافر ومنافق دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھے اور تمام حالات میں کتاب وسنت کے دامن سے وابستگی کی توفیق عطا فرمائے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج1ص489

محدث فتویٰ

تبصرے