سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(250) جلسۂ استراحت کا کیا حکم ہے؟

  • 1047
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1374

سوال

(250) جلسۂ استراحت کا کیا حکم ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جلسۂ استراحت کے بارے میں کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

جلسۂ استراحت کے بارے میں علماء کے حسب ذیل تین اقوال ہیں:

(۱)          مطلقاً مستحب ہے۔

(۲)         مطلقاً مستحب نہیں ہے۔

(۳)         جس کے لیے سیدھا کھڑا ہونا مشکل ہو، وہ بیٹھ جائے اور جس کے لیے مشکل نہ ہو، وہ نہ بیٹھے۔

المغنی: ۱/۵۲۹ مطبوعہ دارالمنار میں، اس آخری قول کے بارے میں لکھا ہے کہ اس سے تمام احادیث میں تطبیق ہو جاتی ہے اور یہ ایک معتدل قول ہے اور اس کے بعد اگلے صفحہ میں حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ  کی یہ روایت بیان کی ہے کہ فرض نماز میں یہ سنت ہے کہ جب آدمی پہلی دو رکعتوں سے اٹھے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو زمین پر نہ لگائے الایہ کہ بہت بوڑھا ہو جسے ہاتھوں کے سہارے کے بغیر کھڑا ہونے کی استطاعت نہ ہو، اس حدیث کو( اثرم) نے روایت کیا ہے۔ (السنن الکبری للبیہقي: ۲/ ۱۳۶)

پھر انہوں نے لکھا ہے کہ حدیث حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ  جس میں یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے جب اپنے سر کو دوسرے سجدے سے اٹھایا تو سیدھے بیٹھ گئے اور پھر زمین پر ہاتھوں کو رکھا۔ صحیح البخاری، الاذان، باب کیف یعتمد علی الارض اذا قام… ۸۲۴۔

تو یہ اس وقت پر محمول ہوگا، جب ضعف اور کبر سنی کی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کو سیدھا کھڑا ہونے میں مشقت محسوس ہوتی تھی کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا تھا:

« اِنِّیْ قَدْ بَدَّنْت فلا تسبقونی بالرکوع ولا بالسجودُ» (سنن ابن ماجه، اقامة الصلوات، باب النهی ان يسبق الامام، ح: ۹۶۳ الارواء، ح: ۵۰۹)

’’رکوع وسجود میں مجھ سے جلدی نہ کرو… بے شک میں بڑی عمر کا ہوگیا ہوں۔‘‘

میرا میلان بھی اسی قول کی طرف ہے کیونکہ حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ  نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں اس وقت حاضر ہوئے جب آپ غزوئہ تبوک کی تیاری فرما رہے تھے، اور اس وقت واقعی نبی صلی اللہ علیہ وسلم  بڑی عمر کو پہونچ چکے تھے اور ضعف شروع ہوگیا تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  سے روایت ہے:

«لَمَّا بَدَّنَ رَسُوْلُ اللّٰهِ وَثَقُلَ کَانَ أَکْثَرُ صَلَا تِهِ جَالِسًا» (صحيح مسلم، صلاة المسافرين، باب جواز النافلة قائما وقاعدا، ح: ۷۳۲ (۱۱۷)۔

’’جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی عمر بڑی اور وزن زیادہ ہوگیا تو آپ زیادہ تر بیٹھ کر نماز ادا فرماتے تھے۔‘‘

عبداللہ بن شقیق نے ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا  سے پوچھا تھا: کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم  بیٹھ کر نماز ادا فرما لیا کرتے تھے؟ تو انہوں نے جواب دیا:

«نَعَمْ بَعْدَ مَا حَطَمَهُ النَّاسُ» (صحيح مسلم، صلاة المسافرين، باب جواز النافلة قائما وقاعدا، ح: ۷۳۲ (۱۱۵)۔

’’ہاں لوگوں کے آپ پر بھیڑ کرنے کے بعد (یعنی بڑی عمر ہونے کے بعد آپ بیٹھ کر نماز پڑھ لیا کرتے تھے۔‘‘)

اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا  سے روایت ہے:

«مَا رَأَيْتُ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی فِیْ سُبْحَتِهِ قَاعِدًا حَتَّی کَانَ قَبْلَ وَفَاتِهِ بِعَامٍ فَکَانَ يُصَلِّی فِی سُبْحَتِهِ قَاعِدًا» (صحيح مسلم، صلاة المسافرين، باب جواز النافلة قائما وقاعدا… ح: ۷۳۳)

’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو نفل نماز بیٹھ کر پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا لیکن وفات سے ایک سال پہلے میں نے آپ کو نفل نماز بیٹھ کر پڑھتے دیکھا۔‘‘

ایک روایت میں الفاظ یہ ہیں: وفات سے ایک سال یا دو سال پہلے دیکھا۔یہ تمام روایات صحیح مسلم میں ہیں اور اس مؤقف کی تائید اس بات سے ہوتی ہے کہ زمین پر سہارا لینے کا ذکر حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ  کی حدیث میں ہے اور کسی چیز کا سہارا بوقت ضرورت ہی لیا جاتا ہے۔ اس کی تائید حضرت عبداللہ بن بحینہ رضی اللہ عنہ  کی حدیث سے بھی ہوتی ہے جو بخاری اور دیگر کتب میں موجود ہے کہ

«اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی بِهِمُ الظُّهْرَ فَقَامَ فِی الرَّکْعَتَيْنِ وِ لَمْ يَجْلِسْ» (صحيح البخاري، الاذان، باب من لم ير التشهد الاول واجبا… الخ، ح:۸۲۹ وصحيح مسلم، المساجد، باب السهو فی الصلاة… الخ‘ ح: ۵۷۰)

’’بے شک نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے ظہر کی نماز پڑھائی تو آپ پہلی دو رکعتوں میں کھڑے ہوگئے اور بیٹھے نہیں۔‘‘

(وَلَمْ يَجْلِسْ) ’’اور بیٹھے نہیں‘‘ کے الفاظ عام ہیں۔ جلسۂ استراحت کو انہوں نے مستثنیٰ نہیں کیا اور یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ جس بیٹھنے کی نفی کی گئی ہے، اس سے تشہد میں بیٹھنا مراد ہے، مطلق بیٹھنا مراد نہیں ہے۔(1)


(1)جلسہ استراحت کے بارے میں یہ کہنا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کا یہ عمل ضعف اور سن رسیدگی کی وجہ سے تھا کیونکہ اس کے راوی حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ  ہیں جو ۹ ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے ملے تھے۔ لیکن یہ استدلال قوی نہیں، اس لیے کہ حدیث مسیی الصلوٰۃ میں بھی جلسۂ استراحت کی تاکید موجود ہے جو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے۔ دیکھئے:  (صحیح بخاري الاستئذان، باب من رد فقال علیک السلام، حدیث: ۶۲۵۱) بنابریں جلسۂ استراحت کو غیر ضروری قرار دینا صحیح نہیں۔ مسنون طریقہ نماز میں جلسۂ استراحت بھی شامل ہے جس کا اہتمام ہر نمازی کو بلا تفرق کرنا چاہیے۔ (ص، ی)

 

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ281

محدث فتویٰ

تبصرے