میں بعض اوقات بہت تھکا رہتا ہوں اور رات کو سوتا بھی دیر سے ہوں جس کی وجہ سے نماز صبح گھر ہی میں پڑھ سکتا ہوں تو کیا یہ جائز ہے؟
ہربالغ مسلمان مرد کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ پانچوں نمازیں اپنے مسلمان بھایئوں کے ساتھ مل کر مسجد میں باجماعت ادا کرے اور اس سلسلہ میں سستی وکاہلی ہر گز جائز نہیں صبح یا دیگر نمازوں میں جماعت سے پیچھے رہ جانا نفاق کی نشانی ہےجیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
‘‘منافق(ان چالوں سے اپنے خیال میں)اللہ کو دھوکا دیتے ہیں(یہ اس کو کیا دھوکا دیں گے)وہ انہیں کو دھوکے میں ڈالنے والا ہے اور جب یہ نماز کو کھڑے ہوتے ہیں تو سست اور کاہل ہوکر''
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
''منافقوں کے لئے سب سے زیادہ دشوار نماز عشاء اور صبح کی نماز ہے۔ اور اگر انہیں معلوم ہوتا کہ ان نمازوں میں کتنا اجر وثواب ہے تو وہ گھٹنوں کےبل چل کر آتے۔''
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
''جو شخص آذان سنے اور پھر نماز کے لئے نہ آئے تو اس کی نماز نہیں ہوتی الا یہ کہ کوئی عذر ہو۔''
ایک نابینا آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے پاس کوئی معاون نہیں ہے۔جو مجھے مسجد میں لے جائے تو کیا مجھے گھر میں نماز پڑھنے کی رخصت ہے ؟تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
''کیا تم نماز کےلئے اذان سنتے ہو؟'' تو اس نے کہا ''جی ہاں ''آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا'' پھر اذان کی آواز پر لبیک کہو۔''
جب ایسے نابینا شخص کو جس کے پاس کوئی معاون بھی نہ ہو جماعت میں شرکت سے معذور نہیں سمجھا گیا۔ تو کوئی د وسرا انسان تو بلا اولیٰ معذور نہیں ہوسکتا لہذا اے سائل! آپ پر واجب ہے کہ اللہ سے ڈریں فجر او ر دیگر نمازوں کے باجماعت ادا کرنے کا اہتمام کریں (رات کو) جلد سوجایئں تاکہ صبح کی نماز کے لئے اٹھ سکیں اور بیماری یا خوف وغیرہ کے شرعی عذر کے بغیر گھر میں نماز ادا کرنا جائز نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو حق کے اختیار کرنے اور اس پر ثابت قدم رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب