کیا یہ جائز ہے کہ صبح کی نماز کے وقت آدمی سویا رہے اور جب بیدار ہو اس وقت پڑھ لے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ''جو شخص نماز سے سویا رہے یا بھول جائے تو اسے جس وقت یاد آئے اس وقت پڑھ لے'اس کا وہی وقت ہے۔''میں صبح کے وقت اٹھ تو سکتا ہوں لیکن بڑے مشکل کے ساتھ اور اگر اس وقت نماز پڑھوں تو ذہن بھی حاضر نہیں ہوتا۔(یعنی منتشر ذہن سے نماز پڑھتا ہوں امید ہے کہ صبح کی نماز کی فضیلت خصوصا نہایت وضاحت کے ساتھ اس کے تارک کی سزا بھی بیان فرمایئں گے؟
ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ تمام نمازوں کو باجماعت مسجد میں اداکرے اس کا خاص اہتمام کرے اور ہر اس بات سے دور رہے جو اللہ تعالیٰ کے فرائض کی بجار آوری میں رکاوٹ بنے۔ ان فرائض میں سے اہم ترین نماز فجر ہے صحیح حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد موجود ہے کہ:
''منافقوں کے لئے سب سے زیادہ دشوار نماز عشاء اور صبح کی نماز ہے۔ اور اگر انہیں معلوم ہوتا کہ ان نمازوں میں کتنا اجر وثواب ہے تو وہ گھٹنوں کےبل چل کر آتے۔''
اور اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے:
''اور صبح کو قرآن پڑھا کرو کیونکہ صبح کے وقت قرآن پڑھنا موجب حضور(ملائکۃ ) ہے۔''
حدیث میں بھی ہے کہ صبح کی نماز میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔ یعنی اس وقت دن اور رات کے فرشتے جمع ہوتے ہیں۔امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کامذہب ہے کہ نماز فجر ہی نماز وسطیٰ ہے اور کا اسستدلال :
''اوراللہ کے سامنے ادب سےکھڑے رہاکرو۔’’
کے جملہ سے ہے کہ طول قیام تو نماز فجر میں ہی ہوتا ہے۔بہرحال یہ واجب ہے کہ نماز صبح کےلئے خاص اہتمام کیا جائے لہذا ایسے اسباب اختیار کیجئے جن کی وجہ سے آپ کے لئے نماز صبح کاباجماعت اد ا کرنا ممکن ہو مثلا رات جو جلد سوجایئے اور دیر تک بیدار نہ رہیے کیونکہ اس سے رات کے آخری حصہ میں نیند کا غلبہ ہوجاتا ہے۔ اور آدمی صبح کی نماز بروقت ادا نہیں کرسکتا آپ پوری پوری کوشش کریں۔کہ اذان کے قریب یا اذان سنتے ہی بیدا ہوجایئں یا کسی کے ذمے لگایئں جو آپ کو بیدار کردے یا نماز کے وقت آپ کے دروازے پر دستک دے دے۔یا الارم والی گھڑی استعمال کیجئے کہ اذان سن کر یا اذان کے قریب آپ الارم سن کر بیدار ہوجایئں اور جب انسان اٹھنے کا عادی ہوجائے تو وہ سستی اور صعوبت پر قابو پا ہی لیتا ہے۔اس کے لئے اٹھنا آسان ہوجاتا ہے۔نماز سےاسے محبت ہوجاتی ہے۔اور نماز میں وہ جو کہتا اور سنتا ہے۔اس کے لئے اسے دل کی حضوری بھی حاصل ہو جاتی ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب