سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

مطلق نفل نماز

  • 10447
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 961

سوال

مطلق نفل نماز
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا یہ جائز ہے کہ میں مطلق نیت کے ساتھ نفل نماز اداکروں؟مثلاً ایک شخص نے نفل نماز شروع کی اور رکعات کی تعداد کی تحدید نہ کی اور وہ چاہتا ہے کہ جس قدر اللہ تعالیٰ توفیق دے رکعات پڑھے کیا یہ جائز ہے؟ براہ کرم دلیل کے ساتھ جواب دیجئے اور سلام پھیرنے کے بعد جب اسے یہ معلوم ہی نہ ہو کہ اس نے طاق رکعت پڑھی ہیں یا جفت اور نہ یہ معلوم ہو کہ کتنی رکعت پڑھی ہیں۔ تو اس کا کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس کا حکم یہ ہے کہ انسان کو اختیار نہیں ہے۔ کہ وہ جتنی رکعت چاہے بیک وقت شروع کرلے بلکہ وہ شریعت کے حکم کا پابند ہے اور حکم شریعت یہ ہے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

صلاة الليل والنهار مثني مثني (سنن ابی دائود)

''دن اور رات کی نماز دو دو رکعت ہے۔''

لہذا آدمی کو چاہیے کہ وہ دن ہو یا رات نفل نماز دو دو رکعات کرکے پڑھے چار یا چھ یاآٹھ وغیرہ اکھٹی نہ پڑھے ہاں البتہ وتر کے بارے میں یہ ثابت ہے۔ کہ تین یا پانچ یا سات ایک تشہد اور ایک سلام کے ساتھ پڑھے جایئں اسی طرح نو رکعات وتر ایک سلام اور دو تشہد کے ساتھ ادا کی جایئں ایک تشہد آٹھویں رکعت کے بعد کیا جائے۔ اور دوسرا تشہد نویں رکعت کے بعد اور پھر اس کے بعد سلام پھیر دیا جائے الغرض انسان کو اختیار نہیں کہ وہ بیک وقت جتنی تعداد میں چاہے رکعت شروع کرلے بلکہ ضروری ہے کہ دو دو رکعت پڑھے۔ ہاں اس طرح جتنی کعت چاہے پڑھ سکتا ہے۔اگرچہ افضل یہ ہے کہ رات کی نماز تیرہ یا گیارہ رکعت سے زیادہ نہ ہو کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی معمول تھا۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج1ص453

محدث فتویٰ

تبصرے