سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(245) رکوع کے بعد سینے پر ہاتھ باندھنے کے متعلق کیا حکم ہے؟

  • 1041
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 2668

سوال

(245) رکوع کے بعد سینے پر ہاتھ باندھنے کے متعلق کیا حکم ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی نماز کی کیفیت کے متعلق ایک کتاب میں پڑھا ہے کہ رکوع کے بعد سینے پر ہاتھ باندھنا بدعت و ضلالت ہے۔ اس بارے میں صحیح بات کیا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

میں اس بات میں حرج محسوس کرتا ہوں کہ کسی ایسی وجہ سے سنت کی مخالفت کرنے والے کو، جس میں اجتہاد کی گنجائش ہو، بدعتی قرار دیا جائے،چنانچہ جو لوگ رکوع کے بعد اپنے ہاتھوں کو اپنے سینوں پر رکھتے ہیں ان کے قول کی بنیاد سنت ہے، لہٰذا انہیں اس وجہ سے بدعتی قرار دینا کہ انہوں نے ہمارے اجتہاد کی مخالفت کی ہے، یہ انسان کے لیے ایک بہت ثقیل بات ہے۔ اس طرح کے امور میں انسان کو بدعت کا لفظ استعمال نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اس کے معنی یہ ہوں گے کہ ایسے اجتہادی مسائل میں بھی بعض لوگ دوسروں کو بدعتی قرار دیں جن میں اس بات کا احتمال ہوتا ہے کہ حق ایک قول ہو یا دوسرا۔ ایسے اجتہادی مسائل میں بدعتی قرار دینے سے ایسا اختلاف وانتشار پیدا ہوتا ہے جس کی تباہ کاریوں کو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔

میں یہ کہتا ہوں کہ رکوع کے بعد سینے پر ہاتھ باندھنے والے کو بدعتی اور اس کے اس عمل کو بدعت قرار دینا انسان کے لیے بہت ثقیل ہے، اپنے بھائیوں پر یہ الزام نہیں لگانا چاہیے۔ درست بات یہ ہے کہ رکوع کے بعد دائیں ہاتھ کو بائیں پر رکھ لینا سنت ہے اور اس کی دلیل حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ  سے مروی صحیح بخاری کی ہی حدیث ہے، جس میں انہوں نے کہا ہے:

«کَانَ النَّاسُ يأْمَرُونَ أَنْ يَضَعَ الرَّجُلُ الْيَدَ الْيُمْنَی عَلَی ذِرَاعِهِ الْيُسْرَی فِی الصَّلَاةِ» (صحيح البخاري، الاذان، باب وضع اليمنی علی اليسری، ح: ۷۴۰)

’’لوگوں کو حکم دیا جاتا تھا کہ وہ نماز میں دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھیں۔‘‘

اس حدیث سے استدلال استقراء اور تتبع کی بنیاد پر ہے اور وہ اس طرح کہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ حالت سجدہ میں ہاتھ کہاں رکھے جائیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ زمین پر! ہم کہتے ہیں کہ حالت رکوع میں ہاتھ کہاں رکھے جائیں؟ جواب ہے کہ دونوں گھٹنوں پر۔ ہم کہتے ہیں کہ جلسہ کی حالت میں ہاتھ کہاں رکھے جائیں؟ تو اس کا جواب ہے کہ دونوں رانوں پر۔

اب رہ گئی یہ حالت کہ قیام میں رکوع سے پہلے اور بعد میں ہاتھ کہاں رکھے جائیں؟ تو اس کا جواب حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ  کے اس قول میں موجود ہے کہ لوگوں کو حکم دیا جاتا تھا کہ آدمی نماز میں اپنا دایاں ہاتھ اپنے بائیں ہاتھ پر رکھ لے۔ تو یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ حالت قیام میں خواہ وہ رکوع سے قبل ہو یا بعد دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھنا لینا درست ہے۔ اس مسئلہ میں یہی بات حق ہے اور اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت دلالت کرتی ہے۔ اس سوال کا جواب گویا حسب ذیل دو فقروں پر مشتمل ہے:

۱۔            تساہل کی وجہ سے کسی ایسے عمل کو بدعت قرار نہیں دینا چاہیے جس میں اجتہاد کی گنجائش ہو۔

۲۔           صحیح بات یہ ہے کہ رکوع کے بعد دائیں ہاتھ کو بائیں پر رکھنا سنت ہے، بدعت نہیں اور اس کی دلیل حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ  سے مروی وہ حدیث ہے جسے ہم نے بیان کیا ہے۔ یہ حدیث عام ہے اور اس سے رکوع، سجدہ اور قعدہ کی حالتیں مستثنیٰ ہیں کیونکہ ان حالتوں میں ہاتھوں کے رکھنے کی خاص صورتیں سنت سے ثابت ہیں۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ278

محدث فتویٰ

تبصرے