سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

نکاح کے لیے ولی کی شرط

  • 104
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 2094

سوال

نکاح کے لیے ولی کی شرط
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میرے ایک قریبی دوست کو ایک مسئلہ درپیش ہے، وہ خود چونکہ انٹرنیٹ استعمال نہیں کرتے لہٰذا ان کے توسط سے یہ سوال میں یہاں پیش کر رہا ہوں۔ میرے دوست کی ایک جگہ شادی طے پائی ہے۔ شادی طے کرتے وقت والد، والدہ اور والد کا پورا خاندان اس شادی پر رضامند نہیں ہے،کیا اس کا نکاح درست ہے۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شریعت مطہرہ میں نکاح کے لیے ولی کی اجازت کو لازم قرار دیا گیا ہے۔ لیکن ولی کی اجازت مرد کے لیے شرط نہیں ہے بلکہ یہ عورت کے ساتھ خاص ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

«أیما امرأة نکحت بغیر إذن موالیها فنکاحها باطل ثلاث مرات»

(ابوداؤد: 2083)

’’جس عورت نے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا، اس کا نکاح باطل ہے۔ آپﷺ نے یہ کلمات تین مرتبہ دہرائے۔‘‘

یہ حکم خواتین کے لیے ہے نہ کہ مردوں کے لیے۔ مرد خود اپنا ولی ہے وہ شریعت کے احکامات کو ملحوظ رکھتے ہوئے کہیں بھی اپنا نکاح کر سکتا ہے۔ البتہ لڑکے کو چاہئے کہ وہ نکاح کرتے ہوئے والدین کی رضامندی کو اولین ترجیح دے۔ اور حتی المقدور اپنے والدین کو ناراض نہ کرے۔ بالخصوص جب ان کی رضا میں شریعت کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہ ہو۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

«إن اللہ حرم علیکم عقوق الأمهات»

(صحیح بخاری : 2408)

’’اللہ تعالیٰ نے تم پر ماؤں کی نافرمانی کو حرام فرما دیا ہے۔‘‘

اس تصریح کے بعد مذکورہ سوال کے جواب میں ہم یہی کہیں گے کہ والدہ کی رضامندی کے بغیر نکاح تو درست ہو گا۔ لیکن اگر والدہ اس وجہ سے راضی نہیں ہیں کہ وہ لڑکی میں کوئی شرعی عیب دیکھتی ہیں تو پھر والدہ کی رضا کو سامنے رکھتے ہوئے شادی کے فیصلے پر نظر ثانی کی جا سکتی ہے۔

 ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

محدث فتوی

فتوی کمیٹی

تبصرے