میر ی مشکل یہ ہے کہ میں نماز میں حر کت بہت کر تا ہو اور میں نے ایک حدیث سنی ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ جو شخص نماز میں تین با ر حر کت کر ے اس کی نماز با طل ہو جا تی ہے کیا یہ حدیث صحیح ہے ؟نماز میں میں فضو ل حر کتوں سے نجا ت کی کیا سبیل ہے ؟
سنت یہ ہے کہ مو من نما ز کو پو ری تو جہ انہما ک اور قلب و بدن کے خشو ع و خضو ع کے سا تھ ادا کر ے خوا ہ نماز فرض پر ہو یا نفل پر کیو نکہ ار شا د با ر ی تعا لیٰ ہے :
بے شک ایما ن وا لو ں کا میا ب ہو گئے جو نماز میں عجز نیا ز کر تے ہیں ۔"
نما ز بہت اطمینا ن اور سکو ن سے ادا کر نی چا ہئے کیو نکہ یہ نما ز بہت اہم ارکا ن و فرا ئض میں سے ہے چنا نچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے فر ما یا تھا جس نے نما ز کو خرا ب طریقے سے پڑ ھا اور اطمینا ن و سکون سے نہیں پڑھا تھا کہ :
واپس لو ٹ جا ؤ نماز پڑ ھو کیو نکہ تم نے نماز نہیں پڑ ھی ۔ چنا نچہ تین با ر ایسے ہو ا تو اس آ دمی نے عرض کیا ۔
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !اس ذا ت کی قسم ! جس نے آپ کو حق کے سا تھ معبو ث فر ما یا ہے میں اس سے اچھے طریقے سے نماز نہیں پڑ ھ سکتا لہذا مجھے سکھا دیجیے "تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا جب تم نما ز پڑھنے کا ارادہ کر و خوب اچھے طر یقے سے وضوء کرو پھر قبلہ رخ ہو کر اللہ ا کبر کہو اور جو آسانی سے ممکن ہو قرآن پڑھو پھر رکو ع کرو اور اطمینان سے رکو ع کر و پھر رکو ع سے سر اٹھا ؤ اور اطمینا ن سے سیدھے کھڑ ے ہو جا ؤ پھر سجدہ کر و اور نہا یت اطمینا ن سے سجدہ کر و پھر سجدہ سے سر اٹھا ؤ اور اطمینان سے بیٹھ جا ؤ پھر سجدہ کر و اور نہا یت اطمینا ن سے سجدہ کر و اور سا ر ی نماز اسی طرح اطمینا ن سے ادا کرو ۔ " ابو دا ؤد کی ایک روا یت میں یہ الفا ظ بھی ہیں کہ :
''پھر ام القرآن (سورۃ فا تحہ ) اور جو اللہ چا ہے پڑ ھو ۔''
یہ صحیح حدیث اس با ت پر دلا لت کر تی ہے کہ طما نینت نما ز کا رکن اور فر ض عظیم ہے اس کے بغیر نما ز صحیح نہیں ہو تی جو شخص نما ز میں ٹھونگیں ما ر ے اس کی نماز نہیں ہو تی کیو نکہ خشو ع و خضو ع تو نما ز کا خلاصہ اور نما ز کی روح ہے لہزا مو من کو چا ہئے کہ وہ نما ز مین غشو ع و خضو ع کے منا فی تین حر کتو ں سے نما ز با طل ہو جا تی ہے اس کا ذکر نبی کی کسی حدیث میں نہیں یہ بعض اہل علم کی با ت ہے جس کی بنیا د کسی قا بل اعتما د دلیل پر نہیں ہے ہا ں البتہ نما ز میں فضو ل حر کتیں مثلاً نا ک میں انگلی ڈا لنا داڑھی کے با لو ں میں ہا تھ پھیر نا اور کپڑو ں کے سا تھ کھیلنا وغیرہ مکروہ ہے اور اگر اس طرح کی فضو ل حرکا ت کثر ت اور تسلسل کے سا تھ ہو ں تو ان سے نما ز با طل ہو جا تی ہے لیکن اگر حرکتیں ایسی ہوں جنہیں عرف میں قلیل سمجھا جا تا ہو یا حر کتیں کثیر ہو ں لیکن مسلسل نہ ہو ن تو ان سے نما ز با طل تو نہ ہو گی لیکن مو من کے لئے حکم شریعت یہ ہے کہ وہ خشوع وخضوع کا اہتما م کر ے فضو ل حرکا ت کو چھو ڑ دے خو اہ وہ قلیل ہو ں یا کثیر تا کہ اس کی نماز تمام و کما ل درجہ کی نما ز ہو ۔ وہ دلا ئل جن سے یہ ثا بت ہو تا ہے کہ عمل قلیل اور حرکات قلیلہ سے نما ز با طل نہیں ہو تی نیز متفرق اور غیر مسلسل عمل و حر کت سے بھی نما ز با طل نہیں ہوتی ان میں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثا بت یہ حدیث بھی ہے کہ :
آپ نے ایک دن نما ز پڑ ھتے ہو ئے عا ئشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے دروازہ کھو ل دیا تھا نیز حضرت ابو قتا دہ سے مر وی حدیث ثا بت ہے کہ:
ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نوا سی حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی بیٹی امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو اٹھا کر لو گوں کو نما ز پڑ ھا ئی آپ جب سجد ہ میں جا تے تو انہیں بٹھا دیتے اور جب کھڑ ے ہو تے تو انہیں اٹھا لیتے
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب