سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(137) وضو میں ترتیب اور موالات کا حکم

  • 1026
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 2709

سوال

(137) وضو میں ترتیب اور موالات کا حکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

وضو میں ترتیب کے کیا معنی ہیں؟ وضو میں موالات سے کیا مراد ہے اور اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

وضو میں ترتیب کے معنی یہ ہیں کہ آپ اس طرح شروع کریں جس طرح اللہ تعالیٰ نے اسے شروع فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پہلے چہرے کے دھونے کا ذکر فرمایا، پھر دونوں ہاتھوں کے دھونے کا، پھر سر کے مسح کا اور پھر دونوں پاؤں کے دھونے کا۔ اللہ تعالیٰ نے دونوں ہتھیلیوں کے دھونے کا چہرہ دھونے سے پہلے ذکر نہیں فرمایا کیونکہ دونوں ہتھیلیوں کا چہرے سے پہلے دھونا واجب نہیں بلکہ سنت ہے، لہٰذا اعضا وضو میں اسی ترتیب کو ملحوظ رکھیں جس ترتیب کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ان کا ذکر فرمایا ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب فریضہ حج ادا فرمایا اور آپ سعی کے لیے تشریف لے گئے تو آپ نے کوہ صفا سے آغاز فرمایا۔ جب کوہ صفا کی طرف متوجہ ہوئے تو آپ نے اس آیت کریمہ کی تلاوت فرمائی:

﴿إِنَّ الصَّفا وَالمَروَةَ مِن شَعائِرِ اللَّهِ...﴿١٥٨﴾... سورة البقرة

’’بے شک صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔‘‘

اور پھر فرمایا:

((اَبْدَأُ بِمَا بَدَأَ اللّٰہُ بِہِ)) (صحیح مسلم، الحج، باب صفة حجة النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، ح:۱۲۱۸۔)

’’میں بھی اسی سے شروع کرتا ہوں، جس سے اللہ تعالیٰ نے شروع فرمایا ہے۔‘‘

اسی طرح آپ نے واضح فرما دیا کہ مروہ سے پہلے آپ صفا پر اس لیے تشریف لائے ہیں تاکہ اس سے شروع کریں جس کا اللہ تعالیٰ نے پہلے ذکر فرمایا ہے۔ موالات کے معنی یہ ہیں کہ اعضائے وضو میں زمانہ کے اعتبار سے فرق نہ کیا جائے یعنی بعض اعضا کو ایک وقت میں دھویا جائے اور بعض کو دوسرے وقت میں۔ اس کی مثال یہ ہے کہ اگر اس نے اپنے چہرے کو دھویا اور پھر دونوں ہاتھوں کو اس کے بعد بہت تاخیر سے دھویا تو اس صورت میں موالات باقی نہ رہی، لہٰذا اس صورت میں واجب ہے کہ دوبارہ ازسر نو وضو کرے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ایک شخص کو دیکھا کہ اس نے وضو کیا ہے اور اس کے پاؤں میں ناخن کے بقدر جگہ رہ گئی ہے جس کو پانی نہیں لگا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«اِرْجِعْ فَأَحْسِنْ وُضُوءَ کَ»(صحیح مسلم، الطهارة، باب وجوب استيعاب جمیع اجزاء محل الطهارة، ح:۲۴۳)

’’واپس جاؤ اور اچھی طرح وضو کرو۔‘‘

اور سنن ابی داؤد کی روایت میں ہے کہ آپ نے اسے دوبارہ وضو کرنے کا حکم دیا۔ یہ حدیث بھی اس بات کی دلیل ہے کہ موالات شرط ہے اور اس لیے بھی کہ وضو ایک عبادت ہے اور ایک عبادت کے مختلف اجزاء کی ادائیگی میں فرق نہیں ہونا چاہیے۔ صحیح بات یہ ہے کہ ترتیب اور موالات وضو کے فرائض میں سے دو فرض ہیں۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

 

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ200

محدث فتویٰ

تبصرے