سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(153) نواقض وضو کا ذکر

  • 1024
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 3918

سوال

(153) نواقض وضو کا ذکر

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

وضو کن کن چیزوں سے ٹوٹ جاتا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

جن چیزوں سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ان کے بارے میں اہل علم میں اختلاف ہے، ہم ان میں سے صرف ایسی چیزوں کو بیان کریں گے جو دلیل کے ساتھ ثابت ہیں:

۱۔            ہر وہ چیز جو قبل یا دبر سے خارج ہو، اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، خواہ یہ بول ہو یا براز، مذی ہو یا منی یا ہوا وگیس وغیرہ ہو۔ جو چیز بھی قبل یا دبر سے خارج ہو وہ ناقض وضو ہے اور یہ ایسی پکی بات ہے کہ اس کے متعلق پوچھنے کی ضرورت نہیں۔ البتہ خارج ہونے والی چیز اگر منی ہو اور وہ شہوت کے ساتھ خارج ہو تو اس سے غسل واجب ہو جاتا ہے اور اگر خارج ہونے والی چیز مذی ہو تو اس سے آلہ تناسل اور خصیتین کو دھونا اور وضو کرنا واجب ہو تا ہے۔

۲۔           ایسی گہری نیند سے بھی وضو ٹوٹ جاتا ہے جس میں سوئے ہوئے انسان کو اپنا بے وضو ہونا معلوم نہ ہو سکے البتہ اتنی ہلکی نیند سے وضو نہیں ٹوٹتا جس میں سویا ہوا شخص اگر بے وضو ہو جائے تو اسے معلوم ہو جائے کہ اس کا وضو ٹوٹ گیا ہے۔ اس مسئلہ میں اس اعتبار سے کوئی فرق نہیں کہ وہ لیٹ کر سویا ہوا ہے یا بیٹھ کر، ٹیک لگا کر سویا ہوا ہے یا بغیر ٹیک کے کیونکہ اہمیت حضور قلب کی حالت کی ہے۔ اگر نیند ایسی ہو کہ اگر وہ بے وضو ہو جائے تو اسے معلوم ہو جائے تو اس صورت میں وضو نہیں ٹوٹتا اور اگر نیند ایسی گہری ہو کہ اسے اپنے بے وضو ہونے کے بارے میں معلوم نہ ہو سکے تو اس سے وضو کرنا واجب ہوگا کیونکہ نیند خود ناقض وضو نہیں ہے، بلکہ اس وجہ سے اسے ناقض وضو قرار دیا جاتا ہے کہ اس کی وجہ سے وضو ٹوٹ جانے کا گمان ہوتا ہے۔ اسی لئے کہا گیا ہے کہ اگرنیند ہلکی ہو کہ اس میں بے وضو ہونے کی صورت میں معلوم ہو جائے تو اس سے وضو نہیں ٹوٹے گا۔ اس بات کی دلیل کہ نیند بذات خود ناقض وضو نہیں، یہ ہے کہ ہلکی نیند سے وضو نہیں ٹوٹتا۔ نیند اگر بذات خود ناقض وضو ہوتی تو ہلکی یا گہری ہر قسم کی نیند سے وضو ٹوٹ جاتا جیسا کہ پیشاب بذات خود ناقض وضو ہے اور وہ تھوڑا خارج ہو یا زیادہ اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔

۳۔           جب انسان اونٹ یا اونٹنی کا گوشت کھائے تو اس سے بھی وضو ٹوٹ جاتا ہے، خواہ وہ کچا گوشت کھائے یا پکا ہوا، کیونکہ حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے:

«اَنّه سئلَ النبیِ أَ نَتَوَضَّأُ مِنْ لُحُوْمِ الْغَنَمِ؟ قَالَ: اِنْ شِئْتَْٔ فقَالَ: انَٔتَوَضَّأُ مِنْ لُحُوْمِ الْاِبِلِ؟ قَالَ: نَعَمْ،ِ»(صحيح مسلم، الحيض، باب الوضوء من لحوحم الابل، ح:۳۵۶۰)

’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے یہ سوال پوچھا گیا: کیا میں بکری کے گوشت سے وضو کروں؟ آپ نے فرمایا کہ اگر چاہو تو وضو کر لو اور اگر چاہو تو نہ کرو، اس نے عرض کیا: کیا میں اونٹ کے گوشت سے وضو کروں؟ آپ نے فرمایا: ہاں اونٹ کے گوشت سے وضو کرو۔‘‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا بکری کے گوشت کھانے سے وضو کو انسان کی اپنی مرضی پر موقوف قرار دینا اس بات کی دلیل ہے کہ اونٹ کے گوشت کھانے سے وضو کرنا انسان کی اپنی مشیت پر موقوف نہیں ہے بلکہ اس سے وضو کرنا واجب ہے خواہ انسان کچا گوشت کھائے یا پکا ہوا۔ سرخ اور غیر سرخ گوشت کے اعتبار سے بھی کوئی فرق نہیں، اونٹ کے جسم کے کسی بھی عضو یا حصے کا گوشت کھایا جائے، اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس اعتبار سے کوئی فرق بیان نہیں فرمایا، حالانکہ آپ کو معلوم تھا کہ لوگ یہ کھاتے ہیں۔ اگر مختلف اعضا کے گوشت کھانے کے بارے میں حکم مختلف ہوتا تو آپ اسے لوگوں کے سامنے بیان فرما دیتے،تاکہ لوگوں کو اس معاملہ میں بصیرت حاصل ہو جاتی، پھر شریعت اسلامیہ میں ہمیں کسی ایسے حیوان کے بارے میں علم نہیں ہے کہ جس کے اجزاء کے اعتبار سے اس کی حلت وحرمت کا حکم مختلف ہو، کیونکہ حیوان یا حلال ہے یا حرام یا اس کا گوشت کھانا موجب وضو ہے یا موجب وضو نہیں ہے۔ کسی حیوان کے بعض حصے کا حکم کچھ ہو اور بعض کا کچھ، شریعت اسلامیہ میں ایسا حکم نہیں ملتا۔ البتہ یہودیوں کی شریعت میں ایسا حکم ضرور تھا جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَعَلَى الَّذينَ هادوا حَرَّمنا كُلَّ ذى ظُفُرٍ وَمِنَ البَقَرِ وَالغَنَمِ حَرَّمنا عَلَيهِم شُحومَهُما إِلّا ما حَمَلَت ظُهورُهُما أَوِ الحَوايا أَو مَا اختَلَطَ بِعَظمٍ...﴿١٤٦﴾... سورة الأنعام

’’اور یہودیوں پر ہم نے سب ناخن والے جانور حرام کر دئیے تھے اور گایوں اور بکریوں کی چربی ان پر حرام کر دی تھی، سوائے اس کے جوان کی پیٹھ پر لگی ہو یا اوجھڑی میں ہو یا ہڈی میں ملی ہو۔‘‘

اس لیے علماء کا اجماع ہے کہ خنزیر کی چربی بھی حرام ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں صرف اس کے گوشت کا ذکر کیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿حُرِّمَت عَلَيكُمُ المَيتَةُ وَالدَّمُ وَلَحمُ الخِنزيرِ وَما أُهِلَّ لِغَيرِ اللَّهِ بِهِ...﴿٣﴾... سورة المائدة

’’تم پر مرا ہوا جانور، (بہتا) لہو، سور کا گوشت اور جس چیز پر اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے، سب حرام ہیں۔‘‘

اہل علم کے درمیان خنزیر کی چربی کی حرمت کے بارے میں قطعاً کوئی اختلاف نہیں ہے، لہٰذا اس اصول کی بنیاد پر ہم یہ کہتے ہیں کہ اونٹ کا گوشت کھا کر وضو کرنے کے بارے میں حدیث سے اونٹ کی چربی، گوشت، انتڑیاں اور دیگر تمام اعضا مراد ہیں۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ213

محدث فتویٰ

تبصرے