السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جب انسان وضو کرتے ہوئے کسی ایک عضو کو دھونا بھول جائے تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جب انسان وضو کرے اور وہ کسی ایک عضو کو دھونا بھول جائے پھر اگر اسے جلد یاد آجائے تو وہ اسے اور اس کے بعد والے تمام اعضا کو دھوئے۔مثلاً: ایک شخص نے وضو کیا اور اس نے دائیں ہاتھ کو دھو لیا مگر بائیں ہاتھ کو دھونا بھول گیا، پھر اس نے سر اور کانوں کا مسح کر لیا اور پھر دونوں پاؤں کو بھی دھو لیا اور وہ جب اپنے دونوں پاؤں کے دھونے سے فارغ ہو اتو اسے یاد آیا کہ اس نے بائیں ہاتھ کو نہیں دھویا ہے تو اس سے ہم یہ کہیں گے کہ وہ اپنے بائیں ہاتھ کو دھوئے، سر اور دونوں کانوں کا مسح کرے اور پھر دونوں پاؤں کو دھوئے تو سر اور کانوں کے مسح اور پاؤں کے دوبارہ دھونے کو ہم نے ترتیب ہی کی وجہ سے واجب قرار دیا ہے۔ وضو میں واجب ہے کہ اس ترتیب کو ملحوظ رکھا جائے۔ جس ترتیب کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اسے درج ذیل آیت کریمہ میں بیان فرمایا ہے:
﴿فَاغسِلوا وُجوهَكُم وَأَيدِيَكُم إِلَى المَرافِقِ وَامسَحوا بِرُءوسِكُم وَأَرجُلَكُم إِلَى الكَعبَينِ...﴿٦﴾... سورة المائدة
’’تو اپنے منہ اور کہنیوں تک اپنے ہاتھ دھو لیا کرو اور سر کا مسح کر لیاکرو اور ٹخنوں تک پاؤں دھو لیا کرو۔‘‘
اور اگر اسے طویل مدت کے بعد یاد آئے تو وہ از سر نو سارا وضو دوبارہ کرے، مثلاً: ایک شخص وضو کرے اور وہ اپنا بایاں ہاتھ دھونا بھول جائے، وضو سے فارغ ہو کر چلا جائے اور پھر طویل مدت کے بعد اسے یاد آئے کہ اس نے بایاں ہاتھ نہیں دھویا تو اس کے لیے واجب ہے کہ از سر نو سارا وضو دوبارہ کرے کیونکہ پہلے وضو میں موالات باقی نہیں رہی اور اعضائے وضو میں موالات وضو کے صحیح ہونے کے لیے شرط ہے۔ اور اگر اسے صرف یہ شک ہو کہ معلوم نہیں اس نے اپنا بایاں ہاتھ دھویا ہے یا نہیں یا یہ شک ہو کہ اس نے کلی کی اور ناک صاف کی ہے یا نہیں تو اس شک کی طرف التفات نہیں کیا جائے گا اور وہ اپنی نماز کو جاری رکھے گا، اس صورت میں کوئی حرج نہیں کیونکہ عبادات سے فراغت کے بعد شک کا اعتبار نہیں کیا جاتا اس لئے اگر ہم یہ کہیں کہ فراغت کے بعد بھی شک کا اعتبار ہے تو اس سے لوگوں کے لیے وسوسے کا ایک دروازہ کھل جائے گا اور ہر انسان اپنی عبادت میں شک کرنے لگے گا، اس لیے اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں پر یہ رحمت ہے کہ عبادت سے فراغت کے بعد پیدا ہونے والے شک کو ناقابل التفات قرار دے دیا گیا ہے، لہٰذا انسان اس کی طرف توجہ نہ دے، البتہ اگر کسی خلل کے بارے میں واقعی یقین ہو تو پھر اس کی تلافی واجب ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب