السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک شخص جو بریلوی عقیدے کے اکثر امور کا ماننے والا تھا ، اگرچہ مزاروں پر کبھی کبھار چلا جاتا مگر قبروں پرجا کر بزرگوں سے دعا مانگنے وغیرہ جیسی انتہاؤں تک پہنچا ہوا نہیں تھا ، گیارھویں وغیرہ بانٹتا، کبھی نماز پڑھتا کبھی چھوڑ دیتا مگر آخر عمر میں صرف جمعے کی نماز پڑھنے تک محدود ہو گیا۔ اس کے اہل خانہ کا یہ بھی دعوی ہے کہ جب اسے اخیر عمر میں یہ بتایا گیا کہ بزرگوں کی نیازوں کی بجائے اللہ کی راہ میں صدقہ کرنا چاہیے تو اس نے ایسا ہی کرنا شروع کر دیا۔ اسی طرح عقیدے سے متعلق اور کئی امور میں قدرے لچکدار رویہ رکھتا تھا اور دلائل کو سن یا مان بھی لیتا مگر بعض مرتبہ بعض امور میں غیر لچکدار رویے کا اظہار بھی کرتا ۔ اہلِ تصوف کے قصوں سے متاثر تھا مگر بہرحال، اپنی تمام تر جہالت و لا علمی یا نافرمانیوں کے باوجود اللہ کو ہی کارساز سمجھتا اور اس بات کا اظہار اپنی باتوں میں اکثر و بیشتر کرتارہتا۔ اس شخص کی وفات کے بعد اس کے ترکے کا کچھ حصہ اہل و عیال میں تقسیم کر دیا گیا مگرکچھ تقسیم ابھی باقی ہے۔اب اس کے اہلِ خانہ میں سے بعض افراد کے علم میں یہ بات آئی ہے کہ شرکیہ عقائد والے یا بے نمازی کا ترکہ وراثت کے طور میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔ دوسری جانب ہم ایک ایسے معاشرے میں رہ رہے ہیں جہاں بے نمازی ، یا شرکیہ عقائد کے حامل افراد بے شمار ہیں، ان کی وفات کے بعد جائدادیں تقسیم ہوتی ہیں، کوئی ایسا اسلامی نظام بھی موجود نہیں جہاں ایسی جائیداد کو حکومت یا قاضی کے سپرد کر دیا جائے۔ درج بالا تمام امور و حقائق کی روشنی میں اس متوفی کے متروکہ مال کا کیا کیا جائے گا؟ اگر یہ مال وراثت کے طور پر تقسیم ہونا نہیں بنتا تھا تو پھر جو مال پہلے تقسیم ہو چکا اس کے بارے میں کیا حکم ہے۔؟ الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤالوعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته! الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!صورت مسئولہ میں شریعت کے مطابق اس کا ترکہ تقسیم کیا جائے گا،جو تقسیم ہو چکا وہ بھی درست ہے اور جو باقی ہے اسے شرعی حصوں کے مطابق تقسیم کر دیا جائے۔کیونکہ بیان کردہ سوال میں کوئی ایسی چیز بیان نہیں کی گئی ہے جو اس کے ترکہ کی تقسیم میں رکاوٹ ہو۔یاد رہے کہ موانع وراثت چیزیں ہیں ،جو درج ذیل ہیں۔ 1۔قتل 2 ۔اختلاف دین 3 ۔ غلامی جبکہ یہاں ان تینوں میں سے کوئی مانع نہیں ہے۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصوابفتوی کمیٹیمحدث فتوی |