کیا عورت کے لئے آذان کہنا جائز ہے؟کیا اس کی آواز کو پردہ شمار کیاجائے گا یا نہیں؟
اولا۔علماء کے صحیح قول کے مطابق عورت کے لئے آذان نہیں ہے۔کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ اور حضرات خلفاء راشدین رضوان اللہ عنہم اجمعین کے عہد میں کبھی کسی عورت نے اذان نہیں کہی تھی۔
ثانیاً!عورت کی آواز علی الاطلاق پرد ہ نہیں ہے۔کیونکہ عورتیںنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی شکایتیں پیش کرتیں۔اسلامی احکام دریافت کرتیں خلفاء راشدین رضوان اللہ عنہم اجمعین اور ان کے بعد کے حکمرانوں سے بھی احکام ومسائل کے بارے میں گفتگو کرتیں۔اجنبی مردوں کو سلام کرتیں۔اوران کے سلام کا جواب بھی دیتی تھیں۔اور آئمہ اسلام میں سے کسی نے کبھی بھی اس سے منع نہیں کیا۔ہاں البتہ عورت کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ مردوں سے بات کرتےہوئے اپنے لہجے میں شیرینی اور حلاوت (مٹھاس) پیدا کرے۔کیونکہ اس سے مردفریفتہ ہوں گے۔اور یہ امر ان کے لئے باعث فتنہ ہوگا۔جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
‘‘اے پیغمبرکی بیویو!تم دوسری عورتوں کی طرح نہیں ہو،اگرتم پرہیز گاررہنا چاہتی ہو تو(کسی اجنبی شخص سے)نرم نرم باتیں نہ کروتاکہ وہ شخص جس کے دل میں کوئی مرض ہے کوئی امید (نہ)پیداکرلے اوردستورکے مطابق بات کیا کرو۔''
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب