سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

جنین ساقط ہونے کی صور ت میں عورت کے لئے احکام

  • 10195
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1167

سوال

جنین ساقط ہونے کی صور ت میں عورت کے لئے احکام
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بعض حاملہ عورتوں کا جنین ساقط ہوجاتا ہے۔کئی جنین ایسے ہوتے ہیں۔جن کی تخلیق مکمل ہوچکی ہوتی ہے۔اور بعض ایسے ہوتے ہیں۔جن کی تخلیق ابھی مکمل نہیں ہوئی ہوتی امید ہے کہ آپ یہ وضاحت فرمایئں گے کہ ان دونوں صورتوں میں نماز کا کیا حکم ہوگا؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جب عورت ایسے جنین کو ساقط کرے جس کا سر ہاتھ پاؤں اور دیگر اعضاء بن چکے ہوں تو وہ نفساء (نفاس والی) ہے۔اس کے لئے وہی احکام ہوں گے جو نفاس کے ہیں۔وہ طہارت یا چالیس دن سے پہلے نماز پڑھے گی نہ روزہ رکھے گی۔ اور اس کے شوہر کے لئے اس سے مقاربت حلال ہوتی اگر وہ چالیس دنوں سے کم میں طاہر ہوجائے تو اس کے لئے غسل نماز اور رمضان کے روزے واجب ہوں گے۔ اور اس کے شوہر کے لئے اس سے مقاربت حلال ہوگی۔

نفاس کی کم سے کم مدت کی کوئی حد نہیں اگر وہ ولادت کے دس دن بعد یا اس سے کم زیادہ دنوں میں پاک ہوجائے تو اس کے لئے غسل کرناواجب ہوگا۔اور اس کے لئے طاہر عورتوں کے احکام ہوں گے۔اور وہ خون جو چالیس دنوں کے بعد دیکھے وہ فاسد خون ہوگا۔اس کی موجودگی میں وہ نماز روزہ کرسکتی ہے۔اور اس کے شوہر کے لئے مقاربت بھی حلال ہے۔مستخاضہ کی طرح اسے ہرنماز کے وقت میں وضوء کرنا ہوگا کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ بنت جیش رضی اللہ تعالیٰ عنہا ۔۔۔جب وہ مستخاضہ تھیں۔۔۔سے فرمایا کہ:

وتوضي لوقت كل صلاة (''ہر نماز کے وقت میں وضوء کرو۔''(1)

اور چالیس دنوں کے بعد اگر ماہانہ معمول یعنی حیض شروع ہوجائے تو اس کے لئے حیض کا حکم ہوگا یعنی اس کے لئے طہارت سے پہلے نماز روزہ اور جنسی عمل حرام ہوگا۔

اگر ساقط ہونے والے جنین میں عمل تخلیق ابھی تک واضح نہ ہوا ہو یعنی ابھی تک وہ گوشت کا لوتھڑا سا ہو اس میں ہاتھ پاؤں نمایاں نہ ہوئے ہوں یا ابھی تک صرف خون ہی ہو تو اس کے لئے حیض ونفاس کا نہیں بلکہ مستخاضہ کا حکم ہوگا یہ نماز پڑھے گی۔ رمضان کے روزے بھی رکھے ۔ گی۔ اس کے شوہر کے لئے وظیفہ زوجیت بھی حلال ہوگا اسے ہر نماز کے

وقت میں وضوء کرنا ہوگا مستخاضہ کی طرح روئی وغیرہ کے ساتھ خون کوگرنے سے روکنا ہوگا حتیٰ کہ وہ پاک ہوجائے اسے ظہر وعصر اور مغرب وعشاء کی نمازیں جمع کرکے پڑھنے کی بھی اجازت ہے۔اس کے لئے ظہر عصر مغرب وعشاء اور صبح کی نماز کے لئے غسل کرنے کا بھی حکم ہے۔جیسا کہ اس سلسلے میں حدیث حمنہ بنت جحش سے ثابت ہے کیونکہ اس صورت میں اہل علم کے نزدیک یہ عورت مستخاضہ کے حکم میں ہے۔


(1)امام شوکانیؒ فرماتے ہیں۔کہ '' ان الرواية لكل صلاة لالوقت كل صلاة’’ روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ ہر نماز کے لیے وضو کرو۔یہ الفاظ نہیں ہیں کہ ہر نماز کے وقت کے لئے وضوءکرو ۔نیل الاوطار جلد :1 ص :275 امام شوکانی ؒ کی یہ بات درست ہے۔چنانچہ ملاحظہ فرمایئں۔(سنن ابن دائود کتاب الطہارۃ باب من قال تغستسل من طھرالی طھرح :298)

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج1ص324

محدث فتویٰ

تبصرے