سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(143) موزوں پر مسح کرنے کا وقت

  • 1015
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 3336

سوال

(143) موزوں پر مسح کرنے کا وقت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

موزوں پر مسح کا وقت کب شروع ہوتا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

یہ مسئلہ ان اہم مسائل میں سے ہے جن کی لوگوں کو ضرورت ہے کہ ان کے سامنے اسے بیان کیا جائے، لہٰذا ہم سوال کی نسبت جواب ان شاء اللہ زیادہ تفصیل کے ساتھ دیں گے۔ موزوں پر مسح کتاب وسنت سے ثابت ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿يـأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِذا قُمتُم إِلَى الصَّلوةِ فَاغسِلوا وُجوهَكُم وَأَيدِيَكُم إِلَى المَرافِقِ وَامسَحوا بِرُءوسِكُم وَأَرجُلَكُم إِلَى الكَعبَينِ...﴿٦﴾... سورة المائدة

’’مومنو! جب تم نماز پڑھنے کا قصد کرو تو منہ اور کہنیوں تک اپنے ہاتھ دھو لیا کرو اور سر کا مسح کر لیا کرو اور ٹخنوں تک پاؤں دھو لیا کرو۔‘‘

’’اَرْجُلَکُمْ‘‘ کو اگر لام کے کسرہ کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کا ’’بِرُءُ وْسِکُمْ‘‘ پر عطف ہوگا اور پاؤں بھی ان اعضا میں سے ہوں گے، جن پر مسح کرنا ہے لیکن قرآن مجید میں اس کی قراءت لام کے فتحہ کے ساتھ ہے اور اس صورت میں اس کا عطف ’’وَجُوْهَکُمْ‘‘ پر ہوگا اس بنیادپر یہ ان اعضا کے شمارہوگا  جن کو دھویا جاتاہے، لہٰذا ان دونوں قراء توں کے مطابق پاؤں کو دھویا جائے یا ان پر مسح کیا جائے اس کا فیصلہ سنت نے اس بات کو بیان کرکے کر دیا بخوبی کردیاہے کہ ان کو کب دھونا چاہئے اور کب ان پر مسح کرنا چاہئے ؟ بایں طورکہ انہیں دھویا اس وقت جائے گا جب یہ ننگے ہوں گے اور مسح اس وقت کیا جائے گا جب یہ موزے وغیرہ کے ساتھ چھپے ہوں گے۔

جہاں تک سنت سے اس کے ثبوت کا تعلق ہے تو موزوں پر مسح نبی صلی اللہ علیہ وسلم  سے تواتر کے ساتھ ثابت ہے، اہل علم نے اس باب میں وارد روایات کو متواتر احادیث میں شمار کیا ہے، جیسا کہ کسی نے اسے نظم میں اس طرح بیان کیا ہے:

مِمَّا تَوْاتَرَ حَدِيْثُ مَنْ کَذَبْ وَمَنْ بَنٰی لِلّٰهِ وَاحْتَسَبْ

وَرُؤيَةٍ، شَفَاعَةٍ وَالْحَوْضِ وَمَسْحِ خُفَّيْنِ وَهٰذی بَعْضُ

’’متواتر احادیث میں سے وہ ہے، جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ہے کہ جس نے جان بوجھ کر میری طرف کوئی جھوٹی بات منسوب کی، وہ اپنا ٹھکانا جہنم سمجھے اور وہ حدیث جس میں ہے کہ جس نے حصول ثواب کی نیت سے اللہ تعالیٰ کا گھر بنایا، اللہ تعالیٰ اس کا گھر جنت میں بنائے گا، نیز روئیت باری تعالیٰ، شفاعت، حوض کوثر اور موزوں پر مسح کرنے کی احادیث بھی متواتر ہیں اور یہ چند متواتر احادیث ہیں، جنہیں بطور مثال پیش کیا گیا ہے۔‘‘

گویا موزوں پر مسح نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی متواتر احادیث سے ثابت ہے اور جب انسان نے حالت طہارت میں انہیں پہنا ہو تو انہیں اتارنے اور پاؤں کے دھونے سے، ان پر مسح کرنا افضل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ  نے جب وضو کے وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے موزے اتارنے کا ارادہ کیا تو آپ نے فرمایا:

«دَعْهُمَا فَاِنِّیْ اَدْخَلْتُهُمَا طَاهِرَتَيْنِ»(صحیح البخاري، الوضوء، باب اذا ادخل رجليه وهما طاهرتان، ح:۲۰۶ وصحيح مسلم، الطهارة، باب المسح علی الخفين، ح:۲۷۴، ۷۹)

’’انہیں چھوڑ دیں کیونکہ میں نے انہیں پاک (وضو کی) حالت میں پہنا ہے۔‘‘

پھر آپ نے ان پر مسح فرمایا۔ موزوں پر مسح کے لیے درج ذیل شرطیں ہیں:

۱۔            انہیں حدث اصغر اور حدث اکبر دونوں سے کامل طہارت کی صورت میں پہنا ہو۔ اگر انہیں حالت غیر طہارت میں پہنا گیا تو ان پر مسح کرنا صحیح نہیں ہوگا۔

۲۔           مسح، مدت مسح کے اندر ہو، مدت کا بیان ان شاء اللہ تعالیٰ آگے آئے گا۔

۳۔           مسح طہارت صغریٰ یعنی وضو میں ہے۔ اگر انسان پر غسل واجب ہو تو پھر موزوں کو اتارنا واجب ہوگا تاکہ انسان سارے بدن کا غسل کر سکے۔ لہٰذا حالت جنابت میں موزوں پر مسح نہیں کیا جا سکتا، جیسا کہ حضرت صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ  سے مروی حدیث میں ہے:

«کَانَ رَسُوْلُ اللّٰهِ يَأْمُرُنَا اِذَا کُنَّا سَفْرًا اَنْ لَّا نَنْزِعَ خِفَافَنَا ثَلَا ثَةَ اَيَّامٍ وَلَيَالِيَهُنَّ اِلاَّ مِنْ جَنَابَةٍ»(سنن النسائي، الطهارة، باب التوقيت فی المسح، ح: ۱۲۶، ۱۲۷، وجامع الترمذی، الطهارة، باب المسح علی الخفين للمسافر والمقيم، ح:۹۶)

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ہمیں یہ حکم دیا کرتے تھے کہ ہم حالت سفر میں اپنے موزوں کو تین دن تین رات تک نہ اتاریں الایہ کہ جنابت کی حالت(درپیش) ہو۔‘‘

یہ موزوں پر مسح کرنے کے جواز کی تین شرطیں ہیں۔

مدت مسح: مسح کی مدت مقیم کے لیے ایک دن و ایک رات اور مسافر کے لیے تین دن وتین رات ہے۔ اس سلسلے میں نمازوں کی تعداد کا نہیں بلکہ وقت کا اعتبار ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے مقیم کے لیے ایک دن رات اور مسافر کے لیے تین دن رات کا تعین فرمایا ہے۔ دن رات کے چوبیس اور تین دن رات کے بہتر گھنٹے بنتے ہیں۔

اب رہا یہ سوال کہ اس مدت کی ابتدا کب سے ہوگی، تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس مدت کی ابتدا اس وقت ہوگی، جب پہلی بار مسح کیا جائے گا۔ اس کی ابتدا نہ تو موزے پہننے کے وقت سے ہوگی اور نہ پہننے کے بعد بے وضو ہونے کے وقت سے ،کیونکہ شریعت میں مسح کا لفظ استعمال ہوا ہے اور مسح کا وجود اسی وقت ثابت ہوگا، جب عملی طور پر مسح کی انجام دہی ہوجائے۔ حدیث کے الفاظ میں ہے کہ مقیم ایک دن رات اور مسافر تین دن رات مسح کرے، اس بنیادپر مدت کے لیے مسح کا وجود ضروری ہے اور وجود اسی وقت ہوگا جب پہلی بار مسح شروع کیا جائے گا جب مسح کی ابتدا کے بعد چوبیس گھنٹے پورے ہو جائیں تو مقیم کے لیے مسح کی مدت ختم ہو جائے گی اور جب بہتر گھنٹے پورے ہو جائیں تو مسافر کے لیے مسح کی مدت ختم ہو جائے گی۔ مزید وضاحت کے لیے درج ذیل مثال ملاحظہ فرمائیں:

ایک شخص نے نماز فجر کے لیے وضو کیا، پھر اس نے موزے پہن لیے، اس کا وضو ظہر کے وقت تک قائم رہا اور اس نے اسی وضو کے ساتھ نماز ظہر ادا کی اور نماز عصر بھی اس نے اسی وضو کے ساتھ ادا کی اور پھر نماز عصر کے بعد پانچ بجے اس نے نماز مغرب کے لیے وضو کیا اور مسح کیا تو یہ شخص اگلے دن پانچ بجے تک مسح کر سکتا ہے اور اگر اس نے دوسرے دن پونے پانچ بجے مسح کیا اور پھر اسی وضو کے ساتھ اس نے مغرب اور عشاء کی نمازیں ادا کیں تو اس نے اس مدت میں پہلے دن نماز ظہر، عصر، مغرب اور عشاء اور دوسرے دن کی فجر، ظہر، عصر، مغرب اور عشاء کی نمازیں ادا کیں اور اس طرح اس نے گویا نو نمازیں مسح کے ساتھ ادا کر لیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ نمازوں کی تعداد کا اعتبار نہیں، جیسا کہ بہت سے عام لوگ سمجھتے ہیں کہ مسح کے ساتھ پانچ فرض نمازیں ادا کی جا سکتی ہیں۔ یہ بات بے اصل ہے۔ کیونکہ شریعت نے مقیم کے لیے ایک دن رات کا وقت مقرر کیا ہے اور اس وقت کی ابتدا پہلے مسح سے ہوتی ہے اور مذکورہ مثال سے آپ نے معلوم کر لیا کہ اس شخص نے کتنی نمازیں مسح کے ساتھ ادا کی ہیں۔ اس مثال سے یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ مدت پوری ہونے کے بعد مسح نہیں کر سکتا، کیونکہ اگر اس نے مدت پوری ہونے کے بعد مسح کیا تو وہ باطل ہوگا، اس سے اسے طہارت حاصل نہیں ہوگی اور اگر اس نے مدت تمام ہونے سے پہلے مسح کیا اور پھر مدت تمام ہونے کے بعد تک اس کی طہارت باقی رہی تو اس کا وضو نہیں ٹوٹے گا بلکہ اس کی طہارت باقی رہے گی حتیٰ کہ وضو توٹ جائے کیونکہ اس قول کی کوئی دلیل نہیں کہ مدت پوری ہونے کے ساتھ ہی اس کا وضو ٹوٹ جائے گا۔ مدت پوری ہونے کے معنی یہ ہیں کہ اس کے پورا ہونے کے بعد اب مسح نہیں کیا جا سکتا، اس کے یہ معنی نہیں کہ مدت پوری ہونے کے بعد اس کی طہارت بھی باقی نہیں رہی کیونکہ وقت کا تعین مسح کے لیے ہے، طہارت کے لیے نہیں، لہٰذا مدت پوری ہونے کے ساتھ طہارت ختم ہو جانے کی کوئی دلیل نہیں۔ ہم نے جو موقف اختیار کیا ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ اس شخص نے صحیح شرعی دلیل کے مطابق صحیح وضو کیا تھا، لہٰذا کسی شرعی دلیل کے بغیر ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس کا وضو ٹوٹ گیا ہے اور اس بات کی کوئی دلیل نہیں کہ مدت پوری ہونے کے ساتھ وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ لہٰذا اس کی طہارت باقی رہے گی حتیٰ کہ کتاب وسنت یا اجماع کی روشنی میں وضو ٹوٹ جانے کے اسباب میں سے کوئی سبب پایا جائے۔

مسافر تین دن راتیں یعنی بہتر گھنٹے تک مسح کر سکتا ہے، اس مدت کا آغاز پہلی بار مسح سے ہوگا، اسی لیے فقہائے حنابلہ رحمہم اللہ  نے ذکر کیا ہے کہ اگر کوئی شخص اس وقت موزے پہنے جب وہ اپنے شہر میں مقیم ہو اور پھر اس شہر میں وہ بے وضو ہو جائے اور پھر وہ سفر شروع کر دے اور سفر شروع کرنے کے بعد مسح کرے تو اس حالت میں وہ مسافر کی مدت مسح کو پورا کرے۔ یہ قول ضعیف ہے کہ مدت کی ابتدا اس وقت ہوگی، جب موزے پہننے کے بعد وہ پہلی دفعہ سے بے وضو ہوا۔ موزے پر مسح کو باطل کرنے والی چیز مدت کا ختم ہونا اور موزے کا اتار دینا ہے، جب موزے اتار دئیے جائیں تو مسح باطل ہو جاتا ہے، لیکن طہارت باقی رہتی ہے۔ اس بات کی دلیل کہ موزہ اتارنے سے مسح باطل ہو جاتا ہے، حضرت صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ  سے مروی یہ حدیث ہے:

« أمرناَ رَسُوْلُ اللّٰهِ اَنْ لَّا نَنْزِعَ خِفَافَنَا»(سنن النسائي، الطهارة، باب التوقيت فی المسح، ح: ۱۲۶، ۱۲۷، وجامع الترمذی، الطهارة، باب المسح علی الخفين للمسافر والمقيم، ح:۹۶)

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ہمیں یہ حکم دیا ہے کہ ہم اپنے موزے نہ اتاریں۔‘‘

یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ موزہ اتارنے سے مسح باطل ہو جاتا ہے، یعنی جب انسان مسح کرنے کے بعداپنے موزے کو اتار دے تو اس کا مسح باطل ہو جائے گا یعنی اب وہ دوبارہ اس وقت تک انہیں نہ پہنے اور ان پر مسح نہ کرے، جب تک وہ ایسا کامل وضو نہ کرلے، جس میں اس نے پاؤں کو بھی دھویا ہو۔

موزے اتار دینے کی صورت میں اس کی طہارت باقی رہے گی، کیونکہ مسح کی ہوئی چیز کے اتار دینے سے طہارت ختم نہیں ہوتی اس لیے کہ مسح کرنے والا جب مسح کرتا ہے، تو شرعی دلیل کے مطابق اس کی طہارت مکمل ہو جاتی ہے اور یہ مکمل طہارت اسی وقت ختم ہوگی، جب اس کے ختم ہونے کی کوئی شرعی دلیل وارد ہو۔ اور اس بات کی کوئی شرعی دلیل نہیں کہ مسح کی ہوئی چیز کے اتار دینے سے وضو باطل ہو جاتا ہے البتہ اس بات کی دلیل موجود ہے کہ مسح کی ہوئی چیز کے اتار دینے سے مسح باطل ہو جائے گا، یعنی اس وقت تک دوبارہ مسح نہیں کیا جا سکتا جب تک پاؤں دھو کر مکمل وضو نہیں کر لیا جائے، لہٰذا ہم عرض کریں گے کہ اصل یہ ہے کہ اس صورت میں شرعی دلیل سے ثابت ہو جائے کہ اس صورت میں طہارت باقی نہیں ہے اور جب ایسی کوئی دلیل موجود نہیں تو وضو باقی رہے گا ختم نہیں ہوگا۔ ہمارے نزدیک یہی قول راجح ہے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ207

محدث فتویٰ

تبصرے