سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

مریض کا پتھر کےفرش سے تیمم کرنا

  • 10135
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1682

سوال

مریض کا پتھر کےفرش سے تیمم کرنا
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا اس پتھر سے تیمم کر نا جائز ہے جس سے ہاتھ پر غبار نہ لگے؟ تیمم کن کن اعضاء پر ہوناچاہئے؟ ایک تیمم کے ساتھ کتنی نمازیں پڑھی جا سکتی ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بعض علما ء کا یہ مذہب ہے کہ تیمم کے لئے شرط ہے کہ وہ ایسی مٹی سے ہو جس سے ہا تھ پر غبا ر لگ جا ئے ان کا استدلال ارشاد با ری تعالیٰ :

﴿فَامسَحوا بِوُجوهِكُم وَأَيديكُم مِنهُ...﴿٦﴾... سورة المائدة

"اور اس سے اپنے منہ اور ہا تھوں کا مسح (یعنی تیمم )کر لو ۔"

سے ہے کہ جس میں یہ غبا رنہ ہو اس سے مسح نہیں کیا جا سکتا لیکن صحیح یہ ہے کہ غبا ر شرط نہیں ہے شرط صرف یہ ہے کہ مٹی پا ک ہو چنا نچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

﴿فَتَيَمَّموا صَعيدًا طَيِّبًا...﴿٦﴾... سورة المائدة

"پا ک مٹی سے تیمم کر لو "

صعید سطح زمین کو کہتے ہیں لہذا تیمم ریت سے بھی جا ئز ہے جس میں غبا ر نہیں ہو تا اسی طرح کنکریوں وغیرہ سے بھی جا ئز ہے وہ قیدی ہا مر یض جس کے پا س پتھر یا ٹا ئل وغیرہ سے بنا ہو ا فر ش ہو اور وہ دوسری جگہ نہ جا سکتا ہو تو اس کا اس فرش ہی سے تیمم جا ئز ہو گا خوا ہ اس پر غبا ر نہ بھی ہو نیز مٹی نہ ہو نے کی صورت میں بستر وغیرہ پر بھی تیمم کر سکتا ہے کیو نکہ فر ما ن با ر ی تعا لیٰ ہے:

﴿فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا استَطَعتُم ...﴿١٦﴾... سورة التغابن

"سو جہا ں تک ہو سکے اللہ سے ڈرو''

 اعضا تیمم  چہرہ اور دونوں ہاتھ ہیں پہلے دونوں ہا تھ چہرے پر پھیر لے پھر ایک ہا تھ کو دوسرے ہا تھ پر پھیر ے اور انگلیوں میں خلال کر ے اور مسح کے لئے ہتھیلیوں پر ہی اکتفا ء کر ے اور اگر ہا تھوں پر بھی مسح کر ے تو کو ئی حر ج نہیں اور ایک ہی ضرب کا فی ہے اور اگر دوبا رہ ضرب لگا لے تو یہ بھی جا ئز ہے افضل یہ ہے کہ ہر فرض نماز کے لئے تیمم کر ئے اور اگر دو فرض نمازیں اکٹھی پڑھ رہا ہو تو ان کے لئے ایک تیمم ہی کا فی ہے ایک تیمم کے سا تھ کئی نماز یں پڑھ سکتا ہے بشرطیکہ محدث (بے وضوء ) نہ ہو یا پا نی نہ ملے اور جب پا نی پا لے تو پھر اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہئے اور جسم کو پا نی لگا نا چاہئے

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج1ص295

محدث فتویٰ

تبصرے