ایک عورت نے یہ نذر مانی کہ اگر اس نے بچے کو صحیح سالم جنم دیا اور وہ ایک سال تک سلامت رہا تو وہ ایک سال کے روزے رکھے گی۔ اس نے بچے کو جنم دیا اور اب اسے ایک سال سے بھی زیادہ عرصہ ہو گیا ہے لیکن وہ روزے رکھنے سے عاجز ہے؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ نذر اطاعت عبادت ہے اور اللہ تعالیٰ نے اسے پورا کرنے والوں کی تعریف میں فرمایا ہے:
’’یہ لوگ نذریں پوری کرتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس کی سختی پھیل رہی ہوگی‘‘۔
اور نبی اکرمﷺ نے فرمایا ہے:
’’جو شخص اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی نذر مانے تو اسے اس کی اطاعت کرنی چاہئے اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی نذر مانے تو اسے اس کی نافرمانی نہیں کرنی چاہئے‘‘۔
’’ایک شخص نے یہ نذر مانی تھی کہ وہ مقام بوانہ میں ایک اونٹ ذبح کرے گا‘ اس نے نبی اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اس کے بارے میں پوچھا تو آپﷺ نے فرمایا: کیا اس جگہ زمانۂ جاہلیت کے کسی بت کی عبادت تو نہیں ہوتی؟ عرض کیا گیا: جی نہیں! تو آپ نے فرمایا: کیا اس جگہ زمانہ جاہلیت کا کوئی میلہ تو منعقد نہیں ہوتا؟ عرض کیا گیا جی نہیں! تو آپﷺ نے فرمایا: اپنی نذر کو پورا کرو‘ اس نذر کو پورا نہیں کرنا چاہئے جس میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہو یا جس کا ابن آدم مالک ہی نہ ہو‘‘۔
اس خاتون نے چونکہ یہ ذکر کیا ہے کہ اس نے سال بھر کے روزوں کی نذر مانی تھی اور سال بھر کے متواتر روزے چونکہ صیام دہر کے قبیل سے ہیں اور صیام دہر مکروہ ہیں کیونکہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا ہے:
’’جس نے زمانہ بھر کے روزے رکھے‘ اس نے گویا نہ روزہ رکھا اور نہ افطار کیا‘‘۔
اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ مکروہ عبادت میں اللہ کی نافرمانی ہے لہٰذا ایسی نذر کو پورا نہیں کرنا چاہئے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہؓ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص عبادت مکروہ کی نذر مانے مثلاً ساری رات کے قیام یا زمانہ بھر کے روزوں کی تو ایسی نذر کو پورا کرنا واجب نہیں ہے۔
اس خاتون پر کفارہ قسم واجب ہے اور وہ یہ ہے کہ دس مسکینوں کو نصف صاع فی مسکین کے حساب سے کھجور وغیرہ یا اسی خوراک میں سے دیا جائے جو شہر میں اکثرو بیشتر کھائی جاتی ہو اور اگر اس کی استطاعت نہ ہو تو وہ متواتر تین دن کے روزے رکھ لے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب