سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(154) کیا عورت کو محض ہاتھ لگانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے؟

  • 1003
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1856

سوال

(154) کیا عورت کو محض ہاتھ لگانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا عورت کو چھونے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

صحیح بات یہ ہے کہ عورت کو محض چھوٹے سے وضو نہیں ٹوٹتا الایہ کہ اسے چھونے کی وجہ سے کوئی چیز خارج ہو۔ اس کی دلیل وہ صحیح حدیث ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنی بعض بیویوں کو بوسہ دیا،پھر نماز کے لیے تشریف لے گئے اور وضو نہ کیا اور اس لیے بھی کہ اصل عدم نقض ہے الایہ کہ کسی صحیح اور صریح دلیل سے نقض ثابت ہو جائے۔ اور یہ کہ بندے نے اپنی طہارت کو دلیل شرعی کے مطابق مکمل کیا تھا لہذا جو چیز دلیل شرعی کے تقاضے کے مطابق ثابت ہو، وہ ختم بھی دلیل شرعی ہی کے ساتھ ہو سکتی ہے۔ اگر کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے:

﴿أَو لـمَستُمُ النِّساءَ...﴿٦﴾... سورة المائدة

’’یا تم نے عورتوں کو چھوا ہو۔‘‘

تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس آیت مبارکہ میں چھونے سے مراد ہم بستری ہے، جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے اور پھر اس کی ایک اور دلیل بھی ہے کہ اس آیت میں طہارت کو اصلی اور بدلی دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، اور اسی طرح ان دونوں میں سے ہر ایک کو طہارت صغریٰ اور کبریٰ دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے اور طہارت صغریٰ و کبریٰ کے اسباب کو بھی دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿يـأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِذا قُمتُم إِلَى الصَّلوةِ فَاغسِلوا وُجوهَكُم وَأَيدِيَكُم إِلَى المَرافِقِ وَامسَحوا بِرُءوسِكُم وَأَرجُلَكُم إِلَى الكَعبَينِ...﴿٦﴾... سورة المائدة

’’مومنو! جب تم نماز پڑھنے کا قصد کرو تو منہ اور کہنیوں تک اپنے ہاتھ دھو لیا کرو اور سر کا مسح کر لیا کرو اور ٹخنوں تک پاؤں دھو لیا کرو۔‘‘

یہ پانی کے ساتھ اصلی صغریٰ طہارت ہے، پھر فرمایا: ﴿وَإِن كُنتُم جُنُبًا فَاطَّهَّروا ’’اور اگر تمہیں نہانے کی حاجت ہو تو (نہا کر) پاک ہو جایا کرو۔‘‘یہ پانی کے ساتھ اصلی کبریٰ طہارت ہے۔ پھر فرمایا: ﴿وَإِن كُنتُم مَرضى أَو عَلى سَفَرٍ أَو جاءَ أَحَدٌ مِنكُم مِنَ الغائِطِ أَو لـمَستُمُ النِّساءَ فَلَم تَجِدوا ماءً فَتَيَمَّموا  ’’اور بیماری ہو یا سفر میں ہو یا کوئی تم میں سے بیت الخلاء سے ہو کر آیا ہو یا عورتوں سے ہم بستر ہو اور تمہیں پانی نہ مل سکے تو تیمم کر لو۔‘‘ چنانچہ یہاں تیمم بدل ہے اور ﴿أَو جاءَ أَحَدٌ مِنكُم مِنَ الغائِطِ ’’یا کوئی تم میں سے بیت الخلاء سے ہو کر آیا ہو۔‘‘ یہ سبب صغریٰ کا بیان ہے اور ﴿أَو لـمَستُمُ النِّساءَ ’’یا تم عورتوں سے ہم بستر ہوئے ہو۔‘‘ یہ سبب کبریٰ کا بیان ہے اور اگر اسے ہاتھ سے چھونے پر محمول کیا جائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے طہارت صغریٰ کے دو سبب ذکر کیے ہیں اور طہارت کبریٰ کے سبب سے سکوت فرمایا ہے، حالانکہ اس نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ﴿وَإِن كُنتُم جُنُبًا فَاطَّهَّروا  ’’اور اگر تمہیں نہانے کی حاجت ہو تو (نہا کر) پاک ہو جایا کرو۔‘‘ تو ایسا کہنا قرآنی بلاغت کے خلاف ہے، لہٰذا اس آیت میں عورتوں کو چھونے سے مراد ہم بستر ہونا ہے، تاکہ آیت طہارت کے موجب دواسباب، سبب اکبر اور سبب اصغر پر مشتمل ہو جائے جن میں سے طہارت صغریٰ کا تعلق جسم کے چار اعضا سے ہے جب کہ طہارت کبریٰ کا تعلق سارے بدن سے ہے اور اس کے بدل یعنی تیمم کے ساتھ طہارت کا تعلق صرف دو اعضا سے ہے کیونکہ اس میں طہارت صغریٰ و کبریٰ مساوی ہیں۔

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ راجح قول یہ ہے کہ عورت کو محض چھونے سے خواہ وہ شہوت کے ساتھ ہو یا بغیر شہوت کے وضو نہیں ٹوٹتا الّایہ کہ اس (انسان) سے کچھ خارج ہو۔ اگر منی خارج ہو تو غسل واجب ہے، جب کہ مذی کے خارج ہونے کی صورت میں آلہ تناسل اور خصیتین کو دھو کر وضو کرنا واجب ہے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ215

محدث فتویٰ

تبصرے