سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(542) جو شخص قسم توڑ دے اس کیلئے کفارہ واجب ہے

  • 10027
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1142

سوال

(542) جو شخص قسم توڑ دے اس کیلئے کفارہ واجب ہے
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک دن ایک قریبی شخص نے مجھ سے یہ کہا تھا کہ تو فلاں شخص کی بیٹی سے شادی کرے گا تو میں نے کہا کہ اللہ کی قسم! اگر دنیا میں اس کی بیٹیوں کے سوا اور کوئی عورت نہ ہو تو پھر بھی میں ان سے شادی نہیں کروں گا لیکن کئی سال گزرنے کے بعد میں نے انہی میں سے ایک لڑکی سے شادی کر لی اور اب میں الحمدللہ پرسکون زندگی بسر کر رہا ہوں تو رہنمائی فرمائیں کہ اس سابقہ قسم کے حوالہ سے میں کیا کروں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگر امر واقع اس طرح ہے جس طرح آپ نے سوال میں ذکر کیا ہے تو آپ پر قسم کا کفارہ واجب ہے اور یہ دس مسکینوں کا کھانا کھلانا یا انہیں کپڑے دینا یا ایک غلام آزاد کرنا ہے۔ کھانے کے سلسلہ میں واجب ہے کہ ہر مسکین کو کھجور یا گندم وغیرہ کا نصف صاع دیا جائے جس کا وزن تقریباً ڈیڑھ کلو ہے اور لباس وہ دیا جائے جس میں نماز پڑھنا جائز ہو مثلاً قمیض یا تہبند چادر۔ اگر کوئی شخص کھانا کھلانے یا کپڑے دینے یا غلام آزاد کرنے سے قاصر ہو تو وہ تین دن کے روزے رکھے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿ لا يُؤاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغوِ فى أَيمـٰنِكُم وَلـٰكِن يُؤاخِذُكُم بِما عَقَّدتُمُ الأَيمـٰنَ ۖ فَكَفّـٰرَ‌تُهُ إِطعامُ عَشَرَ‌ةِ مَسـٰكينَ مِن أَوسَطِ ما تُطعِمونَ أَهليكُم أَو كِسوَتُهُم أَو تَحر‌يرُ‌ رَ‌قَبَةٍ ۖ فَمَن لَم يَجِد فَصِيامُ ثَلـٰثَةِ أَيّامٍ ۚ ذ‌ٰلِكَ كَفّـٰرَ‌ةُ أَيمـٰنِكُم إِذا حَلَفتُم ۚ وَاحفَظوا أَيمـٰنَكُم ۚ ...﴿٨٩﴾... سورة المائدة

’’اللہ تعالیٰ تمہاری بے ارادہ قسموں پر تم سے مواخذہ نہیں کرے گا لیکن پختہ قسموں پر (جن کے خلاف کرو گے) مواخذہ کرے گا تو اس کا کفارہ دس محتاجوں کو اوسط درجے کا کھانا کھلانا ہے جو تم نے اپنے اہل و عیال کو کھلاتے ہو یا ان کو کپڑے دینا یا ایک غلام آزاد کرنا اور جس کو یہ میسر نہ ہو تو وہ تین روزے رکھے۔ یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب تم قسم کھا لو (اور اسے توڑ دو) اور تم کو چاہئے کہ اپنی قسموں کی حفاظت کرو‘‘۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج3ص517

محدث فتویٰ

تبصرے